بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں
شاہین بجیں
ساتھ فقیر کی ڈھولک کے پر ڈھم ڈھمیاں
رنگین بجیں
نالہ کشی سے رات جو گلشن رشک بزمِ عشرت تھا
منقاریں مرغان چمن کی صبح تلک جوں
بین بجیں
تجھ سے نہ کہتا تھا میں زاہد مے خانے کی راہ نہ چل
آخر تجھ پر رستے ہی میں تالیاں او بے
دین بجیں
میں جو نشے میں رات ہوا غٹپٹ اس معشوق کی چھاتی ساتھ
پازیبیں پاؤں کی اس کے کیا ہی بصد
تمکین بجیں
شمع رہی شب جب تک جلتی مجھ کو نہ آئی نیند ذرا
جھانجھیں پروانے کے پروں کی بس کہ سر
بالین بجیں
بل بے مزاج نازک تیرا نیند اچٹ گئی اس گل کی
بالیاں پتوں سے جو الجھ کر رات سر
بالین بجیں
وعدہ کر کے جب وہ نہ آیا سیرِ چمن کو دل نے کہا
رات گئی چل باغ سے اب گھڑیاں تو کئی
غمگین بجیں
جی کا کڑھانا میرے تھا منظور مگر گھڑیالوں کی
وصل کی شب جو تا بہ سحر گھڑیالیں بے
آئین بجیں
ڈیڑھ پہر ٹھہروں گا یہ کہہ کہ یار مرے گھر آیا تھا
پر گھبرا کے جانے کو اٹھا جوں ہی پہر پر
تین بجیں
بانگ حمیر سے کم وہ نہ سمجھا بس کہ نفیس مزاج تھا یار
ناقوسیں بت خانوں میں ہر چند بصد
تزئین بجیں
آئے بحتری ہو کے ملائک مر جو گیا عاشق تیرا
نوبتیں کیا کیا شادی کی مرقد میں دم
تلقین بجیں
وصل کی شب آخر ہونے کا مصحفیؔ دھڑکا کیا میں کہوں
جی ہی گیا بس تن سے نکل جب تین پہر پر
تین بجیں