ہم نے ہر فکر کو فردا پہ اٹھا رکھا ہے

عرفان صدیقی


ابھی کھلنے کے لیے بندِ قبا رکھا ہے
ہم نے ہر فکر کو فردا پہ اٹھا رکھا ہے
کیا چھپاؤں مرے مہتاب کہ تیرے آگے
دل کف دست کے مانند کھلا رکھا ہے
ہے مری خاکِ بدن آئینہ گر تیرا کمال
تو نے کس چیز کو آئینہ بنا رکھا ہے
کیسی آنکھیں ہیں کہ دریاؤں کو پہچانتی ہیں
کیسا دل ہے کہ سرابوں سے لگا رکھا ہے
ایک ہی رنگ ہے ، تیرے لب و رخسار کا رنگ
اور میرے ورق سادہ میں کیا رکھا ہے
ہم تعارف ہی سے دیوانے ہوئے جاتے ہیں
اور ابھی مرحلۂ کارِ وفا رکھا ہے
فہرست