تصویر کا رخ ایک ہی رہتا ہے سامنے

باقی صدیقی


اپنی نظر کے دام سے نکلے نہ ہم کہیں
تصویر کا رخ ایک ہی رہتا ہے سامنے
سر پھوڑتا کہ دل کا سکوں دیکھتا کوئی
دیوار سامنے کبھی سایہ ہے سامنے
ہے موت کا خیال بھی کس درجہ دلخراش
اور صورت حیات بھی کیا کیا ہے سامنے
یہ خار ہے کہ تیر غمِ زندگی کوئی
یہ پھول ہے کہ اپنی تمنا ہے سامنے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست