کارواں اک آ کے ٹھہرا سامنے

باقی صدیقی


آ گیا ہر رنگ اپنا سامنے
کارواں اک آ کے ٹھہرا سامنے
کہہ نہیں سکتے محبت میں سراب
دیر سے ہے ایک دریا سامنے
کٹ رہا ہے رشتہ قلب و نظر
ہو رہا ہے اک تماشا سامنے
دل ہے کچھ نا آشنا، کچھ آشنا
تو ہے یا اک شخص تجھ سا سامنے
فاصلہ در فاصلہ ہے زندگی
سامنے ہم ہیں نہ دنیا سامنے
کس نے دیکھا لہو کا آئنہ
آدمی پردے میں سایہ سامنے
اپنے غم کے ساتھ باقیؔ چل دیے
ہے سفر شام و سحر کا سامنے
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مسدس محذوف
فہرست