یوں ہی خدا جو چاہے تو بندے کی کیا چلے

خواجہ میر درد


تیری گلی میں میں نہ چلوں اور صبا چلے
یوں ہی خدا جو چاہے تو بندے کی کیا چلے
کس کی یہ موج حسن ہوئی جلوہ گر کہ یوں
دریا میں جو حباب تھے آنکھیں چھپا چلے
ہم بھی جرس کی طرح تو اس قافلے کے ساتھ
نالے جو کچھ بساط میں تھے سو سنا چلے
کہہ بیٹھیو نہ دردؔ کہ اہلِ وفا ہوں میں
اس بے وفا کے آگے جو ذکر وفا چلے
فہرست