کاش میں پیڑوں کا سایہ ہوتا

شکیب جلالی


جلتے صحراؤں میں پھیلا ہوتا
کاش میں پیڑوں کا سایہ ہوتا
تو جو اس راہ سے گزرا ہوتا
تیرا ملبوس بھی کالا ہوتا
میں گھٹا ہوں، نہ پون ہوں، نہ چراغ
ہم نشیں میرا کوئی کیا ہوتا
زخم عریاں تو نہ دیکھے کوئی
میں نے کچھ بھیس ہی بدلا ہوتا
کیوں سفینے میں چھپاتا دریا
گر تجھے پار اترنا ہوتا
بن میں بھی ساتھ گئے ہیں سائے
میں کسی جا تو اکیلا ہوتا
مجھ سے شفاف ہے سینہ کس کا
چاند اس جھیل میں اترا ہوتا
اور بھی ٹوٹ کے آتی تری یاد
میں جو کچھ دن تجھے بھولا ہوتا
راکھ کر دیتے جلا کر شعلے
یہ دھواں دل میں نہ پھیلا ہوتا
کچھ تو آتا مری باتوں کا جواب
یہ کنواں اور جو گہرا ہوتا
نہ بکھرتا جو فضا میں نغمہ
سینہِ نے میں تڑپتا ہوتا
اور کچھ دور تو چلتے مرے ساتھ
اور اک موڑ تو کاٹا ہوتا
تھی مقدر میں خزاں ہی تو شکیبؔ
میں کسی دشت میں مہکا ہوتا
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست