جو ان کی مختصر روداد بھی صبر آزما سمجھے

فیض احمد فیض


وہ عہد غم کی کاہشہائے بے حاصل کو کیا سمجھے
جو ان کی مختصر روداد بھی صبر آزما سمجھے
یہاں دلبستگی، واں برہمی، کیا جانیے کیوں ہے ؟
نہ ہم اپنی نظر سمجھے نہ ہم ان کی ادا سمجھے
فریب آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے
تمہاری ہر نظر سے منسلک ہے رشتۂ ہستی
مگر یہ دور کی باتیں کوئی نادان کیا سمجھے
نہ پوچھو عہد الفت کی، بس اک خوا ب پریشاں تھا
نہ دل کو راہ پر لائے نہ دل کا مدعا سمجھے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست