لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو

باقی صدیقی


صبح کا بھید ملا کیا ہم کو
لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو
شوقِ نظارہ کا پردہ اٹھا
نظر آنے لگی دنیا ہم کو
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
بھیڑ میں کھو گئے آخر ہم بھی
نہ ملا جب کوئی رستہ ہم کو
تلخی غم کا مداوا معلوم
پڑ گیا زہر کا چسکا ہم کو
تیرے غم سے تو سکوں ملتا ہے
اپنے شعلوں نے جلایا ہم کو
گھر کو یوں دیکھ رہے ہیں جیسے
آج ہی گھر نظر آیا ہم کو
ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو
جلوہ لالہ و گل ہے دیوار
کبھی ملتے سرِ صحرا ہم کو
لے اڑی دل کو نسیمِ سحری
بوئے گلکر گئی تنہا ہم کو
سیر گلشن نے کیا آوارہ
لگ گیا روگ صبا کا ہم کو
یاد آئی ہیں برہنہ شاخیں
تھام لے اے گلِ تازہ ہم کو
لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا پتا ہم کو
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست