اے عشق تیری خیر ہو یہ کیا دیا مجھے

جگر مراد آبادی


دل کو مٹا کے داغِ تمنا دیا مجھے
اے عشق تیری خیر ہو یہ کیا دیا مجھے
محشر میں بات بھی نہ زباں سے نکل سکی
کیا جھک کے اس نگاہ نے سمجھا دیا مجھے
میں اور آرزوئے وصال پری رخاں
اس عشقِ سادہ لوح نے بہکا دیا مجھے
ہر بار یاس ہجر میں دل کی ہوئی شریک
ہر مرتبہ امید نے دھوکا دیا مجھے
اللٰہ رے تیغ عشق کی برہم مزاحیاں
میرے ہی خون شوق میں نہلا دیا مجھے
خوش ہوں کہ حسنِ یار نے خود اپنے ہاتھ سے
اک دل فریب داغِ تمنا دیا مجھے
دنیا سے کھو چکا ہے مرا جوشِ انتظار
آواز پائے یار نے چونکا دیا مجھے
دعویٰ کیا تھا ضبط محبت کا اے جگرؔ
ظالم نے بات بات پہ تڑپا دیا مجھے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست