مرزا غالب

مرزا غالب
مشہور قول کے مطابق غالب 27 دسمبر 1797ء کو کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے۔ مرزا کے آباء و اجداد میں مرزا کے دادا مرزا قُوقان بیگ سمرقند سے ہجرت کرکے مغل شہنشاہ احمد شاہ بہادر کے عہدِ حکومت میں غالباً 1748ء یا 1750ء میں مغلیہ سلطنت میں آ کر آباد ہوئے۔ اُن کا مغل شہنشاہ محمد شاہ کے دربار سے وابستہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1748ء سے قبل ہی ہندوستان میں وارد ہو چکے تھے۔ یہ خاندان حسب و نسب کے اعتبار سے ترک مغل تھا اور تورانی النسل ہونے کے ساتھ ساتھ سمرقند میں آباد ہونے سے اِنہیں سمرقندی ترک بھی سمجھا جاتا تھا۔ غالب کے دادا مرزا قُوقان بیگ ہندوستان آمد کے بعد چند دن لاہور میں مقیم رہے اور پھر دہلی میں شاہی ملازمت اِختیار کر لی۔ کچھ عرصے بعد یہاں سے مستعفی ہو کر مہاراجا جے پور کے پاس نوکری قبول کر لی اور آگرہ میں سکونت اِختیار کی۔ 1795ء یا 1796ء میں غالب کے والد مرزا عبد اللہ بیگ خان کا عقد آگرہ کے ایک فوجی افسر خواجہ غلام حسین خان کی بیٹی عزت النساء بیگم سے ہوا۔ آگرہ میں ہی اِن دونوں سے غالب پیدا ہوئے۔ آگرہ میں 1799ء میں غالب کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف علی بیگ خان پیدا ہوئے جو 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران 18 اکتوبر 1857ء کو قتل ہو گئے تھے۔ غالب کے والد مرزا عبد اللہ بیگ خان ریاست الور میں ملازم تھے اور وہاں 1802ء میں راج گڑھ کے مقام پر ایک جھڑپ میں قتل ہوئے جبکہ غالب کی والدہ کے متعلق آثار و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنوری 1840ء تک بقیدِ حیات تھیں۔ 1802ء میں والد کی وفات کے بعد غالب کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ خان اُن کے سرپرست بنائے گئے جو مرہٹوں کی جانب سے آگرہ کے قلعہ دار تھے۔ 18 اکتوبر 1803ء کو جب آگرہ پر انگریزی افواج نے حملہ کیا تو مرزا نصر اللہ بیگ خان نے قلعہ آگرہ لارڈ لیک کے حوالے کر دیا جس پر انگریزی افواج آگرہ میں داخل ہوگئیں اور مرہٹوں کا اثر ختم ہو گیا۔ لارڈ لیک نے مرزا نصر اللہ بیگ خان کو 1700 روپئے مشاہرے کے ساتھ چار سو گھڑسواروں کا رِسالدار مقرر کر دیا۔ اپریل 1806ء میں مرزا نصر اللہ بیگ خان ہاتھی سے گر کر زخمی ہوئے اور انتقال کرگئے۔ اُن کے پسماندگان میں غالب اور اُن کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف علی بیگ خان بھی شامل تھے۔4 مئی 1806ء کو نواب احمد بخش خان‘ نواب ریاست فیروزپور جِھرکا نے انگریزوں سے سفارش کرکے پسماندگان کا وظیفہ دس ہزار روپئے مقرر کروا دیا جس میں غالب کی دادی‘ تین پھوپھیاں اور چھوٹا بھائی بھی شامل تھا۔ 7 جون 1806ء کو وظیفہ کی یہ رقم دس ہزار سے کم کرکے پانچ ہزار کردی گئی۔ 'تعلیم ' غالب نے 11 سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔ ان کی پہلی زبان اردو تھی لیکن گھر میں فارسی اور ترکی بھی بولی جاتی تھی۔ اس نے چھوٹی عمر میں ہی فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ غالب کے دور میں، "ہندی" اور اردو" کے الفاظ مترادف تھے (دیکھیں ہندی-اردو تنازعہ) کا عنوان تھا اودے ہندی (اردو: عودندی، lit. 'ہندی کا خوشبو')۔ ابتدائی ماخذوں سے پتا چلتا ہے کہ غالب کی شعرگوئی کا آغاز 1807ء سے ہوا اور اولین تخلص اسد تھا لیکن بعد ازاں اُنہوں نے ایک اور شاعر میر اَمانی اسد سے کلام کی مشابہت کے بعد اپنا تخلص غالب اختیار کر لیا تاہم شاعری میں کبھی کبھی اسد بطور تخلص کے ملتا ہے۔ 1816ء سے غالب بطور تخلص کے استعمال کرنا شروع کیا جو تا وقت آخر جاری رہا۔