فیض احمد فیض

فیض احمد فیض
فیض رفتہ رفتہ ترقی پسند تحریک کے کامیاب ترین شاعر سمجھے جاتے ہیں اور ترقی پسند حلقوں سے باہر کے بھی لوگ اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔فیض کا آغاز رومانی شاعر کے طور پر ہوا تھا۔ پھر اُن کے ہاں ترقی پسند شاعری کے موضوعات آگئے مگر اِن موضوعات کو بھی فیض نے بالعموم جمالیاتی اور فنی حسن کے ساتھ الفاظ کا پیرایہ دیا ہے۔ فیض کی شاعری کا آغاز اُن دِنوں سے ہوا جب رومانی رجحان اُردو شاعری میں عروج پر تھا۔ وہ اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری کی رومانی شاعری سے متاثر تھے مگر فیض نے اِس انداز میں جو نظمیں لکھیں ‘ وہ کسی رومانی شاعر کی صدائے بازگشت ہونے کی بجائے ایک نوجوان کے عشقیہ تجربات اور واردات پر مشتمل ہیں۔ بعض انگریزی رومانی شعراء کے اثرات اُن نظموں پر موجود ہیں، جن کا اُنہوں نے اعتراف کیا ہے۔ ’’نقشِ فریادی‘‘ کا پہلا حصہ ایسی ہی نظموں پر مشتمل ہے۔ اُردو شاعری کی روایتی ہئیتوں کے ساتھ ساتھ انگریزی شاعری کی ’’مسٹینز افارمز‘‘ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ چند غزلیں اور قطعات بھی ہیں۔ مشہور نظم’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘سے دوسرے حصے کا آغاز ہوتا ہے جو اُن موضوعات پر مشتمل ہے جو معاصر ترقی پسند شاعری میں مُرَوَّج تھے لیکن اِس حصے کی بعض نظمیں عام ترقی پسند شاعری کی روِش سے مختلف ہیں، مثلاً: ’’رقیب سے‘‘، ’’تنہائی‘‘، ’’موجوعِ سُخَن‘‘ وغیرہ فیض بنیادی طور پر دھیمے لہجے اور آہستگی کا شاعر ہے۔ اُن کے ہاں خودکلامی کا انداز ہے جو بجائے خود دھیمے پن سے عبارت ہے۔ اِس لیے وہ معروف معنوں میں شاعرِ انقلاب نہیں تھے اور نہ ہی اپنے فن کی نفاستوں اور باریکیوں کی وجہ سے شاعرِ عوام بن سکتے تھے ، اِس کے باوجود فیض کے کلام میں تاثیر موجود ہے اور بعض اوقات تفہیم سے پہلے ہی الفاظ ہمیں متاثر کردیتے ہیں۔ یہ فنی اور جمالیاتی حسن ہی ہے جس نے فیض کو اپنے ہم عصروں میں اونچا مقام دیا ہے اور جن میں ترقی پسند یا غیر ترقی پسند شعراء کی کوئی تفریق نہیں۔معاصرین میں فیض کو یہ تخصص بھی حاصل ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک اہم نظم نگار ہیں لیکن غزل کی صنف پر بھی ماہرانہ قدرت رکھتے تھے۔ فارسی اور اُردو غزل کی روایت سے بخوبی آگاہ ہونے کے سبب وہ جدید مضامین کو غزل کی زبان میں اداء کرنے پر قادر تھے اور غزل کی قدیم علامات کو نئے معانی پہناسکتے تھے۔ فیض ترقی پسند تحریک کے شاعر تھے، اور ترقی پسند تحریک کے منشور کے مطابق ترقی پسند شاعری ایک تحریک کے زیر اثر پھلی پھولی تھی اور یہ تحریک ایک واضح منشور کی پیروی کرتی رہی۔ اِس منشور کے مطابق اد ب کا مقصد طبقاتی سماج میں استحصال کا شکار ہونے والے عوام کو باشعور بنانا اور اُن کے حقوق کے جدوجہد کرنا تھا۔ اِس سماج میں سرمایہ دار اور جاگیردار بالادست تھے جو مزدوروں اور کسانوں اور دِیگر محنت کشوں کا اِستحصال کر رہے تھے، اِس لیے ترقی پسند مصنفین کا فرض تھا کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے کچلے ہوئے عوام کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کشمکش پر آمادہ کریں۔ چنانچہ اِس تحریک سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام شعراء مقصدی شاعری کو اَوَّلیت دیتے تھے اور فنی تقاضوں سے لاپرواہی اِختیار کرتے تھے۔ اِس لیے اُن کی شاعری کا بہت سا حصہ پرجوش بیانات بلکہ نعروں کی شکل اِختیار کرلیتا تھا۔ سوویت یونین اور اُس کی پالیسیوں اور لیڈران پر نظمیں لکھی جاتی تھیں جن میں شاعری کا عموماً شائبہ بھی نہیں تھا۔ لہٰذا فیض کو اِس تحریک (یعنی ترقی پسند تحریک) کے اہم ترین شاعر تسلیم کرلیے گئے کیونکہ اُنہوں نے اپنی شاعری میں فنی اور جمالیاتی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا۔ فیض ترقی پسندانہ خیالات کو شاعری بنانے کے ہنر سے واقف تھے۔مغربی شاعروں کے اسالیبِ اظہار سے شعری محاسن اخذ کرنے کے ساتھ ساتھ فارسی اور اُردو شاعری کے کلاسیکی شاہکاروں سے بخوبی آگاہ تھے ، چنانچہ وہ سیدھے اور سپاٹ انداز میں بات کرنے کی بجائے نظم میں ایسی فضاء بنادیتے تھے جو موضوع کی مناسبت سے تیار کی جاتی ہے اور اِس کے لیے امیج بھی اِسی قسم کے استعمال کرتے تھے جو فضاء بندی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔