قمر جلالوی

قمر جلالوی
قمرجلالوی کلاسیکی اردو غزل کے بہتریں کلاسیکل شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے. ان کی غزل شاعری اظہار اور حسیت کے منفرد شاعر ہیں ۔آٹھ سال کی عمر میں اشعار کہنا شروع کئے۔ بیس (٢٠) سال کی عمر میں ان کی شاعری کی دھوم مچ چکی تھی اور وہ ایک مقبول شاعر بن گے۔.۔ 24 سال کی عمر میں ہی انہوں نے بہت سے نوخیز شعرا کو اصلاح دینی شروع کر دی تھی۔ یہیں سے لفظ استاد ان کے نام کا سابقہ بن گیا اور کیا چھوٹے کیا بڑے‘ سبھی انہیں استاد کہنے لگے۔جلالی اور علی گڑھ کے اکثر نوجوان اور شعرا انہیں اپنا کلام دکھانے لگے تھے لیکن وہ خود تشنگی سی محسوس کرتے تھے اور اسی لگن نے انہیں اس وقت کے مشہور استاد اور پختہ کار شاعر امیر مینائی اور سیماب اکبر آبادی سے وابستہ کر دیا۔ قمر جلالوی کا نکاح ۱۹۲۹ء میں محترمہ کنیزہ سیدہ سے ہوا جنکے بطن سے ان کی صرف ایک بیٹی کنیز فاطمہ ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد آپ ۱۱، ستمبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان تشریف لے آئے۔بہت جلد ہر مشاعرے کا جزو لازمی بن گئے۔ وہ اپنے مخصوص ترنم اور سلاست کلام کی وجہ سے ہر مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کے کلام میں دہلی اور لکھنو دونوں مکاتب شاعری کی چاشنی، شوخی اور لطافت نظر آتی تھی۔ غزلیات کے علاوہ وہ مرثیے، سلام، منقبت اور رباعیات بھی کہتے تھے اور ان میں بھی ان کے کلام کے سبھی خوبیاں موجود ہوتی تھیں۔استاد قمرؔ جلالوی اپنے وقت کی عہد آفرین شخصیت رہے… حبِ اہلِ بیت علیہما السلام میں ڈوبی آپ کی اردو شاعری رہتی دنیا تک آ پکا نام زندہ رکھے گی