شکیب جلالی

شکیب جلالی
nbsp;

شعر کا عرفان رکھنے والے ثنائی و ریزہ کاری و علامت نگاری یا کسی وقتی فیشن سے مرعوب نہیں ہوتے ہم تو بقول جگر صرف اتنا جانتے ہیں ’’زبان جو بات کہے دل کو اعتبار آئے‘‘۔ شکیب کے حوالے سے میں جس بات پر اصرار کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت کے ابتدائی شاعروں میں تھے بلکہ انھیں جدید شاعروں کے معماروں میں سے شمار کرنا چاہیے ایسا لگتا ہے کہ شکیب اور ان کے ساتھ کے جدید شاعر زیادہ توانا اور تازہ شعر کہتے تھے، لیکن اب تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد جدید شاعری کی دوشیزگی تو ختم ہوگئی اور بڑھاپے کا سنگار زیادہ آگیا چنانچہ یہ علامت نگاری ابہام اور لفظوں کا توڑ مروڑ سب اسی سمت اور زوال کی نشانیاں ہیں یہ تغیر صرف شاعری میں نہیں بلکہ دنیا کی ہر چیز میں ہمیشہ سے رہا ہے بقول اقبال:

شمشیر و سناں اوّل‘ طاؤس و رباب آخر

اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کی وجہ سے ہی شکیب جلالی کے آگے پیچھے حسرت موہانی اور احمد مشتا ق کے دو شعر لکھ دیے ہیں تاکہ بات واضح ہو سکے۔ شکیب جلالی کی جو بھی شاعری ہمارے سامنے ہے اس کی مقدار ہی کیا ہے لیکن اس مختصر سرمایے کی آب و تاب مرزا مظہر جان جاناں کے خریطۂ جواہر کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ اس میں تو خیر بہت سے شاعروں کا انتخاب تھا یہاں صرف شکیب جلالی کے شعروں کی بات ہو رہی ہے جو کبھی مدھم اور کبھی تیز روشنی پھینک کر اہل ذوق کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں پورا یقین ہے کہ اردو زبان شکیب کے بہت سے شعروں کو اپنے سینے سے لگائے رکھے گی۔

پروفیسر وارث کرمانی