بہادر شاہ ظفر

بہادر شاہ ظفر

ابوالمظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ غازی۔اکبر شاہ ثانی کا دوسرا بیٹا جو لال بائی کے بطن سے تھا۔ ان کا سلسلہ نسب گیارھویں پشت میں شہنشاہ بابر سے ملتا ہے۔ یہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ خاندان مغلیہ کا آخری بادشاہ اور اردو کا ایک بہترین و مایا ناز شاعر تھا، ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ ذوق کی وفات کے بعد مرزا غالب سے شاعری میں رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ 1252 ھ مطابق 1837ء کو قلعہ دہلی میں اس کی تخت نشینی کی رسم ادا کی گئی۔

سوانح

1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر 82 سال کے تھے جب ان کے سبھی بچوں کا سر قلم کرکے ان کے سامنے انگریز تھال میں سجا کر ان کے سامنے تحفے کی شکل میں لائے تھے۔ میجر ہڈسن نے ان کے چاروں لڑکوں مرزا غلام، مرزا خضر سلطان، مرزا ابوبکر اور مرزا عبد اللہ کوبھی قید کر لیا، میجر ہڈسن نے سبھی چاروں صاحبزادوں کا سر کاٹا اور ان کا گرم خون چلو سے پی کر ہندوستان کو آزاد کرنے کی چاہ رکھنے والوں سے انگریزوں کے تئیں جنگ اوربغاوت کوجاری رکھنے کا خطرناک وحشیانہ عہد کو جاری رکھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا گیا۔ بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کی داستان کے لیے 1857ء کی پہلی ہندوستانی جنگ کی اگوائی کی، انگریز سیناپتی نے انہیں دھوکے سے قتل کرنے کے لیے بلوایا اور گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ بہادرشاہ ظفر مغل خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔1837ء میں تخت پوشی کے وقت انہیں ابوالمظفر کے بدلے ابوظفر، محمد سراج الدین، بہادر شاہ غازی نام ملا تھا۔ ان کی حکومت ڈھنگ عالم سے پالم تک ہی مانا جاتا تھا۔ وہ نام ماگ کے دہلی کے چیرمین تھے اور اصل حکومت انگریزوں کے پاس تھی۔ انہوں نے اردو، عربی، فارسی، زبان کے ساتھ گھڑسواری، تلوار بازی، تیراندازی اور بندوق چلانے کی کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ ایک اچھے صوفی درشن کے جانکار فارسی میان، سولے خن میں ادیب وشاعر تھے۔ وہ 1857ء تک حکومت کے کام کاج سنبھالتے رہے۔ انگریزوں نے ان پر حکومتی مجرم اور فوجیوں قتل کے الزام میں عدالت کے ذریعہ مقدمہ چلایا، مقدمے میں پیش کیے گئے ثبو ت بہت زیادہ ظلم آمیز تھے اور قانون عام ہونے کے باوجود انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو مجرم اور خاطی قرار دیا اور ملک سے نکالنے کا جرمانہ دیا۔ بے چارگی، ملک دوست، دین دار، بزرگ 82 سال ہندوستان دھرتی ماں کے لاڈلے بہادر شاہ ظفر پر حیرت انگیز مقدمہ سونپا۔ اکتوبر 1858ء میں انہیں زندگی بھر کے لیے رنگون بھیج دیا گیا اس طرح دیش ایک محب وطن نے ملک سے دور رہ کر بھی ملک کی آزادی کے لیے خود کو قربان کرتے ہوئے اپنے قلم سے آزادی کی لڑائی کوجاری رکھا۔ اس دو ران انہوں نے جو غزلیں لکھیں وہ اپنی مہارت اورترقی کے لیے ہندو ستان کی آزادی کے کے متوالوں کے دلوں میں کشادہ جگہ رکھتی ہیں۔ رنگون میں6 نومبر، 1862ء کو اس آخری مغل خاندان 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے رہبر نے اپنی جان نچھاور کردی۔

جنگ آزادی ہند 1857ء، اسباب

ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ۔ انگریزوں نے اس جنگ کو غدر کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ ایڈیا کمپنی کے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جوکارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھی

بہادرشاہ ظفر اور بغاوت کا مقدمہ

جنگ آزادی ہند کا آغاز 1857ء میں بنگال میں ڈمڈم اور بارک پور کے مقامات پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کر دیا جن میں ان کے خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے ان سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخاست کر دیا۔ لکھنؤ میں بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے اور فوجوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے۔

ہندوستانی سپاہی

9 مئی 1857ء کو میرٹھ میں سپاہیوں نے چربی والے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا، دوسپاہیوں منگل پانڈے اور ایشوری پانڈے نے انگریزوں پر حملہ کر دیا۔ منگل پانڈے کو گرفتار کرلیاگیا اور اسے سزائے موت دی گئی۔ ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ بھی تہذیب سے گرا ہوا تھا۔ دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے ان قیدیوں کو آزاد کرا لیا اور میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے۔ میرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی میں آمد سے دہلی کی فوجیں بھی بگڑ گئیں۔

بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی

دہلی کے مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔ یہی بغاوت بعد میں مغلیہ حکومت کے زوال کا سبب بنی۔

مقدمہ کا فیصلہ اور آغاز

بلاشبہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 1857 ء کی جنگ آزادی ہند جس کو انگریزوں نے بغاوت اور غدر کا نام دیا ہے کے خاتمے کے بعد برطانیہ ہندوستان پر ایک مطلق العنان طاقت بن گئی، اور اپنی منشا کے مطابق فیصلے کرنے لگے، یورپین فوجی کمیشن 27 جنوری 1857ء کو دہلی میں جمع ہوا اس کی تشکیل چیف کمشنر پنجاب جان لارنس کی ہدایت کے مطابق ڈویژن کمانڈر میجر جنرل پینی سی بی کے حکم سے عمل میں آئی، یہ کمیشن ایک صدر اور چار ارکان پر مشتمل تھا، سرکار کی جانب سے وکیل استغاثہ میجر ایف جے ہیروٹ ڈپٹی جج ایڈووکیٹ جنرل تھے، عدالت کا اجلاس مقررہ تاریخ سن 1857 ء کی 27 جنوری کو دن کے 11 بجے بہادرشاہ ظفر کے مقدمے کی سماعت کے لیے لال قلعہ دہلی کے دیوان خاص میں شروع ہوا، بہادر شاہ ظفر پالکی میں بٹھا کر 60 ویں رائفلس کے جوانوں کی حراست میں فوجی عدالت میں پیش کیا گیا، بیاسی سالہ ضعیف و ناتواں شہنشاہ کو ایک قیدی کی حیثیت سے قریبا ڈیڑھ گھنٹہ تک کھڑا رکھا گیا، بہادرشاہ ظفر پرذیل کے مقدمے سنائیے گئے، اول، ،یہ کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کا وظیفہ خوار ہونے کے باجود اس نے دہلی میں باغیوں کی مدد و نصرت کی شورش برپا کی، جرم کا ارتکاب کیا دوم۔ ہندوستانی عوام کو جان بوجھ کر جنگ اور بغاوت میں دھکیل دیا سوم یورپین عوام کا قتل عام کیا سرکاری وکیل نے کہا کہ قیدی کو سزا دی جائے مگر جنرل لیفٹیننٹ جنرل آر چیڈیل ولسن نے بہادرشاہ ظفر کو اماں دے دی تھی، جب بہادرشاہ ظفر سے جرم کا پوچھا گیا تو کچھ دیر تک خاموشی اختیار کی اور کہا تو صرف اتنا کہ نہیں یہ جھوٹ ہے یہ مقدمہ اکیس دن چلتا رہا مارچ کی 9 تاریخ کو فیصلہ ہوا، قریب اٹھارہ مشتبہ چشم دید گواہ پیش کیے گئے، دو سو کے عصری دستاویزات پیش کی گئی جن کا تعلق بہادرشاہ ظفر سے تھا 29 مارچ 1857 ء کو بہادر شاہ ظفر کو قومی مجرم قرار دے کر بدترین مثال قائم کی گئی اور رنگوں بھیج دیا گیا جہاں ان کی وفات مؤرخہ دو نومبر 1862 ء کو ہوئی

رنگون کی زندگی

جنرل نکلسن نے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تک دہلی کا محاصرہ کیے رکھا۔ 14 ستمبر کو کشمیری دروازہ توڑ دیا گیا۔ جنرل نکلسن اس لڑائی میں مارا گیا مگر انگریز اور سکھ فوجوں نے دہلی پر قبضہ کر کے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر لیا بعد میں ایک خودساختہ عدالت کے ذریعے بہادرشاہ ظفر کو جنگ و جدل کا ذمہ دار قرار دیا گیا(خود ہی جج، خود ہی مدعی، خود ہی گواہ)۔ بادشاہ کے دو ملازمین ماکھن چند اور بسنت خواجہ سرا کو گواہ بنایاگیا۔ ان گواہوں کے بیانات کی بادشاہ نے سختی سے تردید کی۔ مگر اسے مجرم قرار دے کر سزا کے طور پر جلا وطن کرکے رنگون بھیج دیا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی رفتار مدہم پڑھ گئی۔ مارچ 1858ء میں لکھنؤ پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ یہاں بھی ظلم وستم کا خوف ناک باب دہرایا گیا۔ دہلی، لکھنؤ، کانپور، جھانسی کے علاوہ چند اور مقامات بھی انگریزوں کے تصرف میں آ گئے۔ جنگ آزادی کا نعرہ ’’انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دو‘‘ تھا، اس لیے اس میں تمام ایسے عناصر شامل ہو گئے جنھیں انگریز سے نقصان پہنچا تھا۔ متضاد عناصر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا تو ہوئے تھے لیکن وطنیت اور قومیت کے تصورات سے ناآشنا تھے۔ ان میں مفاد پرست فتنہ پرداز لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے مذہب کے نام پر تفرقہ ڈالا۔ دکان داروں کو لوٹا گیا کسی گھر یا محلہ کو لوٹنے کے لیے یہ افواہ کافی تھی کہ یہاں گورا (انگریز) چھپا ہوا ہے۔

بہادر شاہ ظفر جس کی بادشاہت کا اعلان باغی سپاہیوں نے کر دیا تھا۔ اور پھر بادشاہ نے اعلان کیا :ہاں میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں اور آپ لوگ ہندوستانی فوج کے سپاہی، آج میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کرتا ہوں، آج کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو کوئی خراج کی رقم نہیں دے گا اور ہم یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ یہ فرنگی ہماری مملکت ہند سے نکل جائیں، سپاہیوں کے نام لکھ کر تنخواہیں مقرر کر دی گئیں، مغل خزانہ ویسے تو خالی تھا مگر وطن کی محبت میں ملے ہوئے مہارانہ پرتاب، بادشاہ اکبر اور شیوا جی کی اولادوں کو ایک ہونے پر مجبور کر دیا، بہادر شاہ کو جنگ آزادی کا سربراہ مقرر کیا گیا اور رقم بادشاہ کے نظر کی جس سے سپاہیوں کو تنخواہیں دی جانے لگیں۔ فوج تو مل گئی مگر اچھا سپہ سالار نا مل سکا۔ چونکہ یہ جنگ مقررہ وقت سے پہلے شروع ہو گئی تھی اس لیے جھانسی کی رانی، تانتیا توپی، بہادر شاہ ظفر میں سے کوئی بھی تیار نا تھا اور غداروں کی بھی کوئی کمی نا تھی جھانسی کی رانی کو شکست ہو گئی اس کے بعد وہ مر گئی۔ تانتیا توپی لاپتہ ہو گئے سارا بوجھ اک لاغر بادشاہ کے سر پر آن پڑا، چنانچہ جنگ میں مرزا ابوبکر کو سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا جو بہت اچھا لڑ رہا تھا مگر غداروں نے اس کو شراب پلا دی جس کی وجہ سے جنگ میں مغل سلطنت کی فوج ہار گئی، اس کے بعد ایک نیا سپہ سالار بہادر شاہ کے پاس آیا اور کہا آگے سے جنگ میں شروع کرتا ہوں اس نے بہادر شاہ کو دہلی چھوڑنے کی درخواست کی اور کہا کے دوبارہ حملہ کر کے دہلی فتح کر لیں گے مگر تقدیر سمجھیں یا مغل بادشاہ کا شہر دہلی سے لگاؤ بادشاہ نے جانے سے انکار کر دیا اور مقبرہ ہمایوں میں پناہ لی بعد ازاں بادشاہ کے قریبی غدار حکیم احسن اللہ نے انگریزوں کو بادشاہ کا پتہ بتا دیا جس سے بادشاہ کو گرفتار کر لیا کیا یوں مغل سلطنت کا سورج غروب ہو گیا اور فرنگی راج شروع، مغل بادشاہ بہادر شاہ جنگ آزادی کی جان تھے ان کے ہوتے ہوئے جنگ آزادی سہی طرح سے شروع رہی لیکن ان کے قید ہونے کے بعد ماند پڑ گئی، پھر بھی جنگ آزادی کی بنیاد رکھنے والا بادشاہ بہادر شاہ ظفر ہی ہے تبھی جا کر سو سال بعد آزادی ملی اگر بادشاہ مراعات لے لیتے تو ہندوستان میں آزادی کا سورج شاید دیر سے طلوع ہوتا۔

پھانسی کا ایک منظر

دہلی کی فتح کے بعد انگریز فوجوں نے شہری آبادی سے خوف ناک انتقام لیا۔ لوگوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ سینکڑوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑا دیے گئے۔ ان میں مجرم بھی تھے اور بے گناہ بھی۔ مسلمان بھی تلوار کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اور ہندو بھی۔ ہندوستانیوں کو توپوں کے سامنے کھڑاکر کے توپ چلادی جاتی جس سے ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑ جاتے۔ صرف ایک دن میں 24 مغل شہزادے پھانسی کے تختے پر لٹکا دیے گئے مسلمان چن چن کر قتل کیے گئے۔ بہت سے مقتدر اور متمول مسلمانوں کی جائدادیں تباہ ہو گئیں۔ معمولی شک وشبہ کی بنا پرمسلمانوں کو ان کی جاگیروں سے بے دخل کر دیا گیا جس کی وجہ سے وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے۔ ان ہولناک مظالم کا اعادہ ان مقامات پر بھی کیا گیا جہاں اولاً جنگ کی آگ بھڑکی تھی۔ ان مظالم کا ذکر مرزاغالب نے اپنے خطوط میں کیا ہے۔ جلد ہی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں نے قتل و غارت میں فرقہ ورانہ رنگ بھر دیا۔ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کردی۔ مسلمان روزی کمانے کے لیے گھٹیا اور کم تر پیشے اپنانے پر مجبور ہو گئے۔ دفتروں میں انہیں چپڑاسی، چوکیدار یا باورچی جیسے کام ملتے تھے۔ سرکاری ملازمتوں کے اشتہار میں یہ سطور واضح کردی جاتیں کہ مسلمان اس عہدہ کے اہل نہیں ہیں۔ ہندو۔ سکھ اور مسیحی مسلمانوں سے آگے نکل گئے۔

مسلمان علما نے انگریزی زبان پڑھنے اور سیکھنے کو خلاف شرع قرار دیا جس سے مسلمانوں نے یہ زبان نہیں سیکھی۔ جس کی وجہ سے وہ ترقی نہ کر سکے۔ جنگ آزادی کے دوران میں چار ہزار انگریزوں کی موت واقع ہوئی جس کے جواب میں 12 لاکھ ہندوستانیوں کا خون بہا کر بھی انگریز کا غصہ کم نہ ہوا۔ انہوں نے اگلے 90 سال تک کبھی ہندوکا اور کبھی مسلمان خون بہایا۔ اگست 1858ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔ اس جنگ کے بعد خصوصاً مسلمان زیر عتاب آئے۔ جب کہ ہندوؤں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت کر لی۔ یوں مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اور خود مسلمان بھی نئی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں سرسید جیسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے اس جنگ آزادی کے وجوہات پر روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ ہندوستانیوں میں موجود احساس محرومیوں کو دور کرکے ہی انگریز یہاں حکومت کر سکتا ہے۔ سرسید نے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے کالج اور یونیورسٹی قائم کی۔ اس جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کر ہندوستان کے لیے لڑے لیکن اس کے بعد انگریز کی سازش اور کچھ ہندوؤں کے رویے کی وجہ سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے۔ یوں پہلی مرتبہ دو قومی نظریے کی بنیاد پڑی۔