ن م راشدؔ کے قلمی نام سے لازوال شہرت پانے والے راشِد کا اصل نام نذر محمد راشِد تھا۔ آپ یکم اکتوبر ۱۹۱۰ کو ضلع گوجرانوالہ کے قصبے اکال گڑھ (موجودہ نام ’’علی پور چٹھہ‘‘ )میں راجا فضل الہی چشتی کے ہاں تولد ہوئے۔ آپ کے والد فارسی زبان کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ راشدؔ کے دادا ڈاکٹر غلام رسول (جو سول سرجن تھے ) بھی اردو اور فارسی کے شاعر تھے اور غلامیؔ تخلص کرتے تھے۔ میٹرک ۱۹۲۶ ، انٹر میڈیٹ ۱۹۲۸ گریجوایشن ۱۹۳۰ اور ایم اے سیاسیات ۱۹۳۲ میں پنجاب یونی ورسٹی سے کیا۔ تعلیم کے اہم مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے انگریزی ، فرانسیسی(انٹر میڈیٹ سطح پر)جب کہ فارسی (گریجوایشن کی سطح تک) نہ صرف پڑھی بلکہ ان زُبانوں پر مکمل دسترس بھی حاصِل کی اور تین سال تک جامعہ پنجاب میں مذکورہ زبانوں کے اُستاد بھی رہے۔ فارسی سے گہری شناسائی اُن کے شعری اُسلوب میں اس قدر نُمایاں ہے کہ آپ کے کلام کی ایک امتیازی خصوصیت تسلیم کی جاتی ہے۔
راشدؔ کی عملی زندگی کا آغاز ۱۹۳۵ میں کلرک کی حیثیت سے ہو ا جہاں سے آپ ترقی کی منازِل طے کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتے رہے۔ تقسیمِ برصغیر سے قبل آپ آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گیے۔ پشاور ، لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے ۱۹۶۰ میں ملازمت سے سبک دوش ہوگئے۔ راشدؔ اقوام متحدہ سے بھی وابستہ رہے اور اس سلسلے میں ایران، عراق، فلسطین، مصر، انڈونیشیا، امریکا، روس، اسٹریلیا، اٹلی، سیلون اور بیلجیم کا سفر بھی کیا۔ یہی عالَم گیر سیاسی اور سماجی حالات ہیں جن کا عملی مطالعہ راشدؔ کے کلام میں ملتا ہے۔ جس کی مثال ان کے شعری مجموعے ایران میں اجنبی، کا سیاسی شعور اور مشرقی اقوام کا تنقیدی تجزیہ ہے۔
ن م راشدؔ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی ۱۹۳۵ میں ۲۵ برس کی عمر میں ماموں زاد صفیہ بیگم سے ہوئی جو ۱۹۶۱ میں واصلِ بحق ہوئیں۔ اہلیہ کے انتقال کے دو سال بعد ۱۹۶۳ میں شیلا انجلینی نامی ایک اطالوی انگریز خاتون سے دوسری شادی ہوئی۔ پہلی بیوی سے آپ کی اولاد میں ایک بیٹا(شہریار) اور تین بیٹیاں (نسرین، یاسمین ، تمزین اور شاہین) ہوئیں۔ شاہین دسمبر ۲۰۰۵ میں انتقال کر چکی ہیں جب کہ دوسری بیوی سے نزیل نامی ایک بیٹا ہے۔ اپنی زندگی میں ’’ملحد‘‘ اور ’’خدا کا باغی‘‘ جیسے الزامات کا سامنا کرنے والے ن م راشدؔ ۹ اکتوبر ۱۹۷۵ کوبرطانیہ میں اپنے انتقال سے قبل اپنی میت کو جلانے کی وصیت کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انگلستان میں میت سوزی کی نسبت میت دفن کرنے کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لیے آپ کی اطالوی اہلیہ نے میّت سوزی کی وصیت کا ڈراما رچایا۔ بہر حال وصیت کے مطابق ان کی میت سوزی کی۔ یہ واقعہ سخت تنقید اور متعدد مباعث کا سبب ٹھہرا۔ اس تناظر میں طارق حبیب کا دعویٰ ہے کہ: راشدؔ آخیر وقت تک بلا شبہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، ، ۔ جب کہ ساقی فاروقی اپنے ایک مضمون میں واضح الفاظ میں شیلا راشد کے بیان کی تصدیق کی ہے۔
ن م راشدؔ کی ادبی زندگی میں وہ میراؔ جی کے ساتھ حلقۂ اربابِ ذوق کے اولین کارکن کے طور پر شریک رہے۔ خصوصا حلقے کی لاہور شاخ کے لیے آپ کی خدمات قابِل ستائش ہیں۔ راشدؔ کی پہلی نظم ’’اتفاقات‘‘ بھی۱۹۳۵ میں اسی اِدارے کے رسالے ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب راشدؔ اردو کے تین ادبی رسائل کی ادارت کر رہے تھے۔ لاہور کے رسالے ’’راوی‘‘ میں (۱۹۳۱ تا ۱۹۳۲) ملتان کے جریدے ’’نخلستان‘‘ میں(۱۹۳۲ تا ۱۹۳۴) اور لاہور کے ادبی رسالے ’’شاہکار‘‘ میں(۱۹۳۴ تا ۱۹۳۵) بطور مدیر ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ اردو رسائل کے ساتھ ساتھ انھوں نے لاہور کے انگریزی رسالے ’’دی بیکن‘‘ (۱۹۲۷ تا ۱۹۲۸) اور ریڈیو پاکستان کے رسالے ’’پاکستان کالنگ‘‘ (۱۹۴۹ تا ۱۹۵۰) کی ادارت بھی کی۔
ہلا مجموعہ ’’ماوَرا‘‘ ۱۹۴۱ میں منظر عام پر آیا۔ دوسرا مجموعہ ’’ایران میں اجنبی‘‘ ۱۹۵۵ میں طبع ہوا جب کہ آپ کی زندگی میں شائع ہونے والا تیسرا شعری مجموعہ ’’لا=انسان‘‘ ۱۹۶۹ میں چھپا۔ چوتھا اور آخری شعری مجموعہ ’’گماں کا ممکِن‘‘ تھا جو آپ کی رحلت کے عین ایک سال بعد ۱۹۷۶ میں سامنے آیا۔