نیا آذر

مصطفی زیدی


مری رفیق طرب گاہ تیری آمد پر
نئے سروں میں نئے گیت گائے تھے میں نے
نفس نفس میں جلا کر امید کے دیپک
قدم قدم پہ ستارے بچھائے تھے میں نے
ہوا کے لوچ گلی سے نکھار مانگا تھا
ترے جمال کا چہرہ سنوارنے کے لیے
کنول کنول سے خریدی تھی حسرتِ دیدار
نظر نظر کو جگر میں اتارنے کے لیے
بہت سے گیت چھلکتے رہے افق کے قریب
بہت سے پھول برستے رہے فضاؤں میں
الجھ الجھ گئی مجروح زیست کی گرہیں
بکھر بکھر گئیں انگڑائیاں خلاؤں میں
میں پوچھتا ہوں کہ اے رنگ و نور کی دیوی
علاج تیرہ شبی کیا اسی کو کہتے ہیں
بجھے بجھے سے یہ مفلس دیے نہ جانے کیا
سلگ سلگ کے تری بے حسی کو کہتے ہیں
یہ گیت سر بہ گریباں ہیں تیرے جانے سے
یہ نو عروس ستارے بڑھا رہے ہیں سہاگ
کلی کلی کو تری بے رخی کا شکوہ ہے
نفس نفس سے نکلتی ہے ایک ایسی آگ
جسے بجھاؤں تو دل زمہریر ہو جائے
ترا عظیم تصور حقیر ہو جائے
 
فہرست