ہے جس کا ہر کرشمہ صبر آزمائے عالم

مصحفی غلام ہمدانی


کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم
ہے جس کا ہر کرشمہ صبر آزمائے عالم
محتاج پھر جہاں میں کوئی نظر نہ آتا
کرتا خدا جو مجھ کو حاجت روائے عالم
ہم کو تو کچھ نہ سوجھا آوے وہی دکھا دے
دیکھا ہو گر کسی نے کچھ یا ورائے عالم
عالم اگر ہے حادث تو مجھ کو تو بتا دے
کیوں اب تلک ہے وہ ہی نشو و نمائے عالم
کوئی کچھ ہی سمجھے اس کو پر اپنی آنکھ میں تو
ساتھ اس حدوث کے ہے ثابت بقائے عالم
وہ بھی نظر میں اپنی اس وقت جلوہ گر ہے
عالم جو کچھ کہ ہو گا بعد از فنائے عالم
آنکھیں تو تجھ کو دی ہیں ٹک دیکھ تو سہی تو
ہے راست کس کے قد پر چسپاں قبائے عالم
عالم میں اور ہم میں اک طرفہ رفتگی ہے
عالم فدا ہے ہم پر ہم ہیں فدائے عالم
ہم ابتدا کی پوچھیں پھر بیٹھ کر حقیقت
ہم کو کوئی بتا دے گر انتہائے عالم
کیا لطف عاشقی کا اب رہ گیا ہماری
یاں آخر جوانی واں ابتدائے عالم
کس غنچہ لب کی مجھ کو یاد آ گئی ہے اس دم
جو تنگ ہو گیا ہے مجھ پر فضائے عالم
ایسے سے داد خواہی محشر میں بھی ستم ہے
ہر ایک غمزہ جس کا ہو خوں بہائے عالم
کب داد کو کسی کی پہنچا وہ روے دل کش
ہم نے تو اس کو پایا حسرت فزائے عالم
جب عالم حیا سے بیگانہ وہ نگہ تھی
پاتے تھے تب بھی اس کو ہم آشنائے عالم
ہیں مصحفیؔ ہم اب تو مانند حادثے کے
دیکھیں ٹلے ہے کس دن سر سے بلائے عالم
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
مضارع مثمن اخرب
فہرست