سرود شبانہ

فیض احمد فیض


کم ہے اک کیف میں فضائے حیات
خامشی سجدۂ نیاز میں ہے
حسن معصوم خواب ناز میں ہے
اے کہ تو رنگ و بو کا طوفاں ہے
اے کہ تو جلوہ گر بہار میں ہے
زندگی تیرے اختیار میں ہے
پھول لاکھوں برس نہیں رہتے
دو گھڑی اور ہے بہار شباب
آکہ کچھ دل کی سن سنا لیں ہم
میری تنہائیوں پہ شام رہے
حسرتِ دید ناتمام رہے
دل میں بے تاب ہے صدائے حیات
آنکھ کو ہر نثار کرتی ہے
آسماں پر اداس ہیں تارے
چاندنی انتظار کرتی ہے
آکہ تھوڑا سا پیار کر لیں ہم
زندگی زر نگار کر لیں ہم
 
فہرست