ایک رہگزر پر

فیض احمد فیض


وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں
وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں
ہزار فتنے تہ پائے ناز، خاک نشیں
ہر اک نگاہ خمار شباب سے رنگیں
شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں
وقار، جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
ادائے لغزشِ پا پر قیامتیں قرباں
بیاض رخ پہ سحر کی صباحتیں قرباں
سیاہ زلفوں میں وارفتہ نکہتوں کا ہجوم
طویل راتوں کی خوابیدہ راحتوں کا ہجوم
وہ آنکھ جس کے بناؤ پہ خالق اترائے
زبان شعر کو تعریف کرتے شرم آئے
وہ ہونٹ فیض سے جن کے بہار لالہ فروش
بہشت و کوثر و تسنیم و سلسبیل بدوش
گداز جسم، قبا جس پہ سج کے ناز کرے
دراز قد جسے سرو سہی نماز کرے
غرض وہ حسن جو محتاج وصف و نام نہیں
وہ حسن جس کا تصور بشر کا کام نہیں
کسی زمانے میں اس رہگزر سے گزرا تھا
بصد غرور و تجمل، ادھر سے گزرا تھا
اور اب یہ راہگزر بھی ہے دلفریب و حسیں
ہے اس کی خاک میں کیف شراب و شعر مکیں
ہوا میں شوخی رفتار کی ادائیں ہیں
فضا میں نرمی گفتار کی صدائیں ہیں
غرض وہ حسن اب اس کا جزو منظر ہے
نیازِ عشق کو اک سجدہ گہ میسر ہے
 
فہرست