شام

فیض احمد فیض


اس طرح ہے کہ ہر اک پیڑ کوئی مندر ہے
کوئی اجڑا ہوا، بے نور پرانا مندر
ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے
چاک ہر بام، ہر اک در کا دمِ آخر ہے
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ ملے ، ماتھے پہ سیندور ملے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بجھے گی نہ اندھیرا ہو گا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہو گا
آسماں آس لیے ہے کہ یہ جادو ٹوٹے
چپ کی زنجیر کٹے ، وقت کا دامن چھوٹے
دے کوئی سنکھ دہائی، کوئی پایل بولے
کوئی بت جاگے ، کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے
 
فہرست