دو مرثیے

فیض احمد فیض


۔ ۱ ۔
ملاقات مری
ساری دیوار سیہ ہو گئی تا حلقۂ دام
راستے بجھ گئے رخصت ہوئے رہ گیر تمام
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری
اک ہتھیلی پہ حنا، ایک ہتھیلی پہ لہو
اک نظر زہر لیے ایک نظر میں دارو
دیر سے منزلِ دل میں کوئی آیا نہ گیا
فرقتِ درد میں بے آب ہوا تختۂ داغ
کس سے کہیے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے ایاغ
اور پھر خود ہی چلی آئی ملاقات مری
آشنا موت جو دشمن بھی ہے غم خوار بھی ہے
وہ جو ہم لوگوں کی قاتل بھی ہے دلدار بھی ہے
۔۲ ۔
ختم ہوئی بارشِ سنگ
ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سمت اندھیرا نہ اجالا ہو گا
بجھ گئی دل کی طرح راہِ وفا میرے بعد
دوستو! قافلۂ درد کا اب کیا ہو گا
اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
تھم گیا شور جنوں ختم ہوئی بارشِ سنگ
خاکِ رہ آج لیے ہے لبِ دلدار کا رنگ
کوئے جاناں میں کھلا میرے لہو کا پرچم
دیکھئے دیتے ہیں کس کس کو صدا میرے بعد
’’کون ہوتا ہے حریفِ مے مرد افگنِ عشق
ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد‘‘
 
فہرست