پاس رہو

فیض احمد فیض


تم مرے پا س رہو
میرے قاتل، مرے دلدار، مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے ،
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہمِ مشک لیے ، نشترالماس لیے
بین کرتی ہوئی، ہنستی ہوئی، گاتی نکلے
درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے
جس گھڑی سینوں میں ڈوبے ہوئے دل
آستینوں میں نہاں ہاتھوں کی رہ تکنے لگیں
آس لیے
اور بچوں کے بلکنے کی طرح قلقلِ مے
بہر ناسودگی مچلے تو منائے نہ منے
جب کوئی بات بنائے نہ بنے
جب نہ کوئی بات چلے
جس گھڑی رات چلے
جس گھڑی ماتمی، سنسان، سیہ رات چلے
پاس رہو
میرے قاتل، مرے دلدار مرے پاس رہو!
(ماسکو)
 
فہرست