مرثیے

فیض احمد فیض


۔۱۔
دور جا کر قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے
وصل و ہجراں بہم ہوئے کتنے
۔۲۔
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دل دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہء و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
۔۳۔
کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ دکھلاؤ گے
کب تک چین کی مہلت دو گے ، کب تک یاد نہ آؤ گے
بیتا دید امید کا موسم، خاک اڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا برساؤ گے
عہدِ وفا یا ترکِ محبت، جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ، ہم سے کیا منواؤ گے
کس نے وصل کا سورج دیکھا، کس پر ہجر کی رات ڈھلی
گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے ، ان کو کیا جتلاؤ گے
فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی، لٹ جانا بھی
تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن اتراؤ گے
 
فہرست