آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال

فیض احمد فیض


۔ ۱۔
آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مدھ بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی
دل نشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرفِ الفت کوئی دلدارِ نظر ہو جیسے
جس سے ملتی ہے نظر بوسۂ لب کی صورت
اتنا روشن کہ سرِ موجۂ زر ہو جیسے
صحبتِ یار میں آغازِ طرب کی صورت
حرفِ نفرت کوئی شمشیرِ غضب ہو جیسے
تا ابد شہرِ ستم جس سے تبہ ہو جائیں
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے
لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیہ ہو جائیں
۔۲۔
آج ہر سر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا
ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اس کی آواز
جوشش درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہوا آج ہر اک پردۂ ساز
آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صوت، تری عمرِ دراز
نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی
 
فہرست