ہم تو مجبورِ وفا ہیں

فیض احمد فیض


تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کرے
کتنی آہوں سے کلیجا ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پرزے ہوے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بدخواہوں کی
خواب کتنے تری شاہراہوں میں سنگسار ہوے
’’بلاکشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا
جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا
مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا‘‘؎۱
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ، ہمارا کیا ہے
(؎۱ یہ دو اشعار مرزا رفیع سودا کے ہیں۔)
 
فہرست