میرے ملنے والے

فیض احمد فیض


وہ در کھلا میرے غمکدے کا
وہ آ گئے میرے ملنے والے
وہ آ گئی شام، اپنی راہوں میں
فرشِ افسردگی بچھانے
وہ آ گئی رات چاند تاروں کو
اپنی آزردگی سنانے
وہ صبح آئی دمکتے نشتر سے
یاد کے زخم کو منانے
وہ دوپہر آئی آستیں میں
چھپائے شعلوں کے تازیانے
یہ آئے سب میرے ملنے والے
کہ جن سے دن رات واسطا ہے
پہ کون کب آیا، کب گیا ہے
نگاہ ودل کو خبر کہاں ہے
خیال سوئے وطن رواں ہے
سمندروں کی ایال تھامے
ہزار وہم وگماں سنبھالے
کئی طرح کے سوال تھامے
(بیروت)
 
فہرست