اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

مرزا رفیع سودا


وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
آیا تھا کیوں عدم میں کیا کر چلا جہاں میں
یہ مرگ و زیست تجھ بن آپس میں ہنستیاں ہیں
کیونکر نہ ہو مشبک شیشہ سا دل ہمارا
اس شوخ کی نگاہیں پتھر میں دھنستیاں ہیں
برسات کا تو موسم کب کا نکل گیا پر
مژگاں کی یہ گھٹائیں اب تک برستیاں ہیں
لیتے ہیں چھین کر دلِ عاشق کا پل میں دیکھو
خوباں کی عاشقوں پر کیا پیش دستیاں ہیں
اس واسطے کہ ہیں یہ وحشی نکل نہ جاؤیں
آنکھوں کو میری مژگاں ڈوروں سے کستیاں ہیں
قیمت میں ان کے گو ہم دو جگ کو دے چکے اب
اس یار کی نگاہیں تس پر بھی سستیاں ہیں
ان نے کہا یہ مجھ سے اب چھوڑ دختِ رز کو
پیری میں اے دوانے یہ کون مستیاں ہیں
جب میں کہا یہ اس سے سوداؔ سے اپنے مل کے
اس سال تو ہے ساقی اور مے پرستیاں ہیں
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
مضارع مثمن اخرب
فہرست