دشت وغا میں نورِ خدا کا ظہور ہے
ذروں میں روشنی تجلی طور ہے
اک آفتاب رخ کی ضیا دور دور ہے
کوسوں زمین عکس سے دریائے نور ہے
اللہ رے حسن طبقۂ عنبر سرشت کا
میدانِ کربلا ہے نمونہ بہشت کا
حیراں زمیں کے نور سے ہے چرخ لاجورد
مانند کہربا ہے رخ آفتاب زرد
ہے روکش فضائے ارم وادی نبرد
اٹھتا ہے خاک سے تتق نور جائے گرد
حیرت سے حاملان فلک ان کو تکتے ہیں
ذرے نہیں زمیں پہ ستارے چمکتے ہیں
ہے آب نہر صورت آئینہ جلوہ گر
تاباں ہے مثل چشمۂ خورشید ہر بھنور
لہریں بسان برق چمکتی ہیں سر بہ سر
پانی پہ مچھلیوں کی ٹھہرتی نہیں نظر
یہ آب و تاب ہے کہ گہر آب آب ہیں
دریا تو آسماں ہیں ستارے حباب ہیں
پرتو فگن ہوا جو رخ قبلۂ انام
مشہور ہو گئی وہ زمیں عرش احتشام
اور سنگ ریزے درِ نجف بن گئے تمام
صحرا کو مل گیا شرف وادی السلام
کعبہ سے اور نجف سے بھی عزت سوا ہوئی
خاک اس زمین پاک کی خاکِ شفا ہوئی
پھیلا جو نور مہر امامت دم زوال
ذروں سے واں کے آنکھ ملانا ہوا محال
سارے نہال فیضِ قدم سے ہوئے نہال
اختر بنے جو پھول تو شاخیں بنیں ہلال
پتے تمام آئینۂ نور ہو گئے
صحرا کے نخل سب شجرِ طور ہو گئے
غل تھا زہے حسین کی شوکت زہے وقار
گویا کھڑے ہیں جنگ کو محبوب کردگار
رخ سے عیاں ہے دبدبۂ شاہ ذو الفقار
ہے نورِ حق جبین منور سے آشکار
کیونکر چھپے نہ ماہ دوہفتہ حجاب سے
چودہ طبق میں نور ہے اس آفتاب سے
یہ روئے روشن اور یہ گیسوئے مشک فام
یاں شام میں تو صبح ہے اور صبح میں ہے شام
ہالے میں یوں نظر نہیں آتا ہے مہِ تمام
قدرتِ خدا کی نور کا ظلمت میں ہے مقام
زلفوں میں جلوہ گر نہیں چہرہ جناب کا
ہے نصف شب میں آج ظہور آفتاب کا
قرباں کمان ابروئے مولا پہ جان و دل
گر ماہِ نو کہیں تو ہے تشبیہ مبتذل
چشمِ غزال دشت ختن چشم سے خجل
دیکھا جسے کرم سے خطائیں ہوئیں بحل
پتلی بسان قبلہ نما بے قرار ہے
گریاں ہیں وہ یہ گردشِ لیل و نہار ہے
رخسار ہیں ضیا میں قمر سے زیادہ تر
جن پر ٹھہر سکی نہ کبھی شمس کی نظر
ریش مخضب اور یہ رخ شاہ بحر و بر
پیدا ہیں صاف معنی و اللیل و القمر
قرآن سے عیاں ہے بزرگی امام کی
کھائی قسم خدا نے اسی صبح و شام کی
کس منہ سے کیجیے لب جان بخش کا بیاں
چوسی جنہوں نے احمدِ مختار کی زباں
کیا در آب دار ہیں اس درج میں نہاں
گویا کہ موتیوں کا خزانہ ہے یہ دہاں
ذرے زمیں پہ عکس سے سارے چمک گئے
جس وقت یہ کھلے تو ستار چمک گئے
شمع حریم لم یزل تھا گلوئے شاہ
تاریک شب میں جیسے ہویدا ہو نور ماہ
اے چرخِ بے مدار یہ کیسا ستم ہے آہ
شمشیر شمر اور محمد کی بوسہ گاہ
جس پر رسول ہونٹوں کو ملتے ہوں پیار سے
کٹ جائے کربلا میں وہ خنجر کی دھار سے
منظور یاں تھی مدح گلوئے شہ امم
یاد آ گئی مگر یہ حدیث غم و الم
مسجد میں جلوہ گر تھے رسولِ فلک حشم
ملتے تھے ذکرِ حق میں لبِ پاک دم بہ دم
روشن تھے بام و در رخِ روشن کے نور سے
آئینہ بن گئی تھی زمیں تن کے نور سے
تھا جو ستوں کہ رکن رسالت کا تکیہ گاہ
کرسی بھی اس کی پشت کی تھی ڈھونڈتی پناہ
تھا جس حصیر پر وہ دو عالم کا بادشاہ
حسرت سے عرش کرتا تھا اس فرش پر نگاہ
اوج زمیں بہشت بریں سے دو چند تھا
منبر کا نہ فلک سے بھی پایہ بلند تھا
اصحاب خاص گرد تھے انجم کی طرح سب
تاباں تھا بیچ میں وہ مہ ہاشمی لقب
سر پر ملک صفات مگس راں تھے دو عرب
جبریل تہ کیے ہوئے تھے زانوئے ادب
خادم بلال و قنبر گروں اساس تھا
نعلین اس کے پاس عصا اس کے پاس تھا
گیسو تھے وہ مفسر و اللیل اذا سجا
رخ سے عیاں تھے معنی و الشمس و الضحا
وہ ریش پاک اور رخ سردار انبیا
گویا دھرا تھا رحل پہ قرآں کھلا ہوا
اوڑھے سیہ عبا جو وہ عالم پناہ تھا
کعبہ کا صاف حاجیوں کو اشتباہ تھا
پہلو میں بادشاہ کے تھا جلوہ گر وزیر
سردار دیں علی ولی خلق کا امیر
دونوں جہاں میں کوئی نہ دونوں کا تھا نظیر
احمد تھے آفتاب تو حیدر مہِ منیر
ظاہر میں ایک نور کا دو جا ظہور تھا
گر غور کیجیے تو وہی ایک نور تھا
مصروف وعظ و پند تھے سلطان مشرقین
جو گھر سے نکلے کھیلتے زہرا کے نورِ عین
نانا بغیر دونوں نواسوں کو تھا نہ چین
بڑھ جاتے تھے حسن کبھی آگے کبھی حسین
کہتے تھے دیکھیں کون قدم جلد اٹھاتا ہے
نانا کے پاس کون بھلا پہلے جاتا ہے
وہ گورے گورے چہروں پہ زلفیں ادھر ادھر
اختر سے وہ چمکتے ہوئے کان کے گہر
رشک ہلال طوق گلے غیرتِ قمر
ہیکل پہ نقش نام خدائے جلیل کے
تعویذ گردنوں پہ پر جبرئیل کے
مسجد میں آئے ہنستے ہوئے جب وہ گل بدن
خوشبو سے صحن مسجدِ جامع بنا چمن
تسلیم کو حسین سے پہلے جھکے حسن
خوش ہو کے مسکرانے لگے سرور زمن
بڑھ بڑھ کے خم سلام کو چھوٹے بڑے ہوئے
بیٹھے رہے رسول ملک اٹھ کھڑے ہوئے
بیٹوں کو تھا علی کا اشارہ کہ بیٹھ جاؤ
لازم نہیں کہ وعظ میں نانا کو تم ستاؤ
پھیلا کے ہاتھ بولے محمد کہ آؤ آؤ
شبیر نے کہا ہمیں پہلے گلے لگاؤ
بھائی حسن جو آپ کی گودی میں آئیں گے
ہم تم سے نانا جان ابھی روٹھ جائیں گے
بولے حسن کہ واہ ہمیں اور کریں نہ پیار
اقرار کے چکے ہیں شہنشاہ نام دار
بولے بہ چشمِ نم یہ حسین فلک وقار
دیکھیں تو کون کاندھے پہ ہوتا ہے اب سوار
سب سے سوا جو ہیں سو ہمیں ان کے پیارے ہیں
آگے نہ بڑھیے آپ کہ نانا ہمارے ہیں
بھائی سے تب کہا یہ حسن نے بہ التفات
بے وجہ ہم سے روٹھے ہو تم اے نکو صفات
نانا ہمارے کیا نہیں سلطان کائنات
ہوتی ہے ناگوار تمہیں تو ذرا سی بات
غصہ نہ اتنا چاہیے خوش خو کے واسطے
مچلے تھے یوں ہی بچۂ آہو کے واسطے
یہ سن کے منہ علی کا لگے دیکھنے رسول
ہنس کر کہا یہ دونوں ہیں میرے چمن کے پھول
میں چاہتا ہوں ایک کی خاطر نہ ہو ملول
روئیں گے یہ تو گھر سے نکل آئے گی بتول
ہووے نہ رنج میرے کسی نورِ عین کو
تم لو حسن کو گود میں میں لوں حسین کو
شبر سے پھر اشارہ کیا ہو کے بے قرار
غصہ نہ کھاؤ پہلے تمہیں کو کریں گے پیار
پھر بولے دیکھ کر سوئے شبیر نامدار
آ اے حسین آ تری باتوں کے میں نثار
چھاتی سے ہم لگائیں گے جان اپنی جان کر
دیکھیں تو پہلے کون لپٹتا ہے آن کر
دوڑے یہ بات سن کے برابر وہ خوش سیر
پاس آئے آفتاب رسالت کے دو قمر
لپٹے حسین ہنس کے ادھر اور حسن ادھر
تھے پانوں زانوؤں پہ تو بالائے دوش سر
نانا کے ساتھ پیار میں دونوں کا ساتھ تھا
گردن میں ایک ان کا اور ان کا ہاتھ تھا
پھر پھر کے دیکھتے تھے شہنشاہ مشرقین
گہہ جانب حسن تو کبھی جانب حسین
بیٹھے جو زانوؤں پہ وہ زہرا کے نورِ عین
تھا تن کو لطف قلب کو راحت جگر کو چین
جھک جھک کے منہ رسولِ زمن چومنے لگے
ان کا گلا تو ان کا دہن چومنے لگے
شبیر چاہتے تھے کہ چومیں مرے بھی لب
پر کچھ گلے کے بوسوں کا کھلتا نہ تھا سبب
نانا کے منہ کے پاس یہ لاتے تھے منہ کو جب
جھک جھک کے چومتے تھے گلا سید عرب
بھائی کو دیکھ کر جو حسن مسکراتے تھے
غیرت سے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے
اٹھے حسین زانوئے احمد سے خشمگیں
غصے سے رنگ زرد اور آنکھوں پہ آستیں
رخ پر پسینہ جسم میں رعشہ جبیں پہ چیں
پوچھا کدھر چلے تو یہ بولے کہیں نہیں
گھر میں اکیلے تیوری چڑھائے چلے گئے
دیکھا نہ پھر کے سر کو جھکائے چلے گئے
بیت الشرف میں آئے جو شبیر نام دار
کرتے کو منہ پہ رکھ کے لگے رونے زارزار
دوڑیں یہ کہہ کے فاطمہ زہرا جگر فگار
ہے ہے حسین کیا ہوا تو کیوں ہے اشک بار
تجھ کو رلا کے غم میں مجھے مبتلا کیا
قربان ہو گئی تجھے کس نے خفا کیا
میرا کلیجا پھٹتا ہے اے دل ربا نہ رو
زہرا ہزار جان سے تجھ پہ فدا نہ رو
سر میں نہ درد ہو کہیں اے مہ لقا نہ رو
بس بس نہ رو حسین برائے خدا نہ رو
میری طرف تو دیکھو کہ بیتاب ہوتی ہوں
چادر سے منہ کو ڈھانپ کے لو میں بھی روتی ہوں
تو منہ تو کھول اے مرے شبیر خوش خصال
تر ہو گئے ہیں آنسوؤں سے گورے گورے گال
مل مل کے پشت دست سے آنکھ کرو نہ لال
سلجھاؤں آؤ الجھے ہوئے گیسوؤں کے بال
گھر سے گئے تھے ساتھ جدا ہو کے آئے ہو
سمجھی میں کچھ حسن سے خفا ہو کے آئے ہو
تم چپ رہو وہ گھر میں تو مسجد سے پھر کے آئیں
گزری میں کھیل سے مرے بچے کو کیوں رلائیں
ان سے نہ بولیو وہ تمہیں لاکھ گر منائیں
لو آؤ جانے دو تمہیں چھاتی سے ہم لگائیں
واری اگر حسن نے رلایا برا کیا
پوچھوں گی کیا نہ میں مرے پیارے نے کیا کیا
بولے حسین ہم تو ہیں اس بات پر خفا
نانا نے چومے بھائی کے ہونٹ اور مرا گلا
تم اماں جان منہ کو تو سونگھو مرے ذرا
کچھ بوئے ناگوار ہے میرے دہن میں کیا
بھائی کے لب سے اپنے لبوں کو ملاتے ہیں
اب ہم نہ جائیں گے ہمیں نانا رلاتے ہیں
منہ رکھ کے منہ پہ بولی یہ زہرا جگر فگار
بوئے گلاب آتی ہے اے میرے گلغدار
چوما اگر گلا تو خفا ہو نہ میں نثار
تم کو زباں چوساتے تھے محبوب کردگار
یہ مشک میں مہک نہ گل یاسمن میں ہے
خوش بو اسی دہن کی تمہارے دہن میں ہے
کہنے لگے حسین یہ ماں سے بہ چشمِ نم
کیا جانو تم حسن سے ہمیں چاہتے ہیں کم
یہ کیا انہیں پہ لطف و عنایت ہے دم بہ دم
معلوم ہو گیا انہیں پیارے نہیں ہیں ہم
رو رو کے آج جان ہم اپنی گنوائیں گے
پانی نہ اب پییں گے نہ کھانے کو کھائیں گے
یہ بات سن کے ہو گیا زہرا کا رنگ فق
بولی پسر سے رو کے وہ بنتِ رسولِ حق
صدقے گئی کرو نہ کلیجے کو میرے شق
ہے ہے یہ کیا کہا مجھے ہوتا ہے اب قلق
میرا لہو بہے گا جو آنسو بہاؤ گے
کاہے کو ماں جیے گی جو کھانا نہ کھاؤگے
یہ کہہ کے اوڑھ لی سر پر نور پر ردا
موزے پہن کے گود میں شبیر کو لیا
در تک گئی جو گھر سے وہ دل بند مصطفا
فضہ نے بڑھ کے بوزر و سلماں کو دی صدا
پیش نبی حسین کو گودی میں لاتی ہیں
ہٹ جاؤ سب کہ فاطمہ مسجد میں آتی ہیں
اللہ رے آمد آمد زہرا کا بندوبست
ساتوں فلک تھے اوج شرافت سے جس کے پست
احمد کے گرد و پیش سے اٹھے خدا پرست
انساں تو کیا ملک کو نہ تھی قدرت نشست
آئیں تو شاد شاد رسولِ زمن ہوئے
گھر میں خدا کے ایک جگہ پنج تن ہوئے
تعظیم فاطمہ کو اٹھے سید البشر
دیکھا کہ چشم فاطمہ ہے آنسوؤں سے تر
غم تھے حسین دوش پہ ماں کے جھکائے سر
تھا اک ہلال مہر کے پہلو میں جلوہ گر
ماں کہتی تھی نہ رؤو مگر چپ نہ ہوتے تھے
آنکھیں تھیں بند ہچکیاں لے لے کے روتے تھے
گھبرا کے پوچھنے لگے محبوب ذو الجلال
روتا ہے کیوں حسین یہ کیا ہے تمہارا حال
بولیں بتول آج قلق ہے مجھے کمال
رویا ہے یہ حسین کہ آنکھیں ہیں دونوں لال
آتے ہیں ہنستے روتے ہوئے گھر میں جاتے ہیں
شفقت بھی آپ ہی کرتے ہیں آپ ہی رلاتے ہیں
ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں یا شاہ بحر و بر
شفقت کی اس کے حال پہ ہر دم رہے نظر
رونے سے اس کے ہوتا ہے ٹکڑے مرا جگر
مجھ فاقہ کش غریب کا پیارا ہے یہ پسر
حیدر سے پوچھیے مرے عسرت کے حال کو
کس کس دکھوں سے پالا ہے اس نونہال کو
اشک اس کے جتنے ٹپکے ہیں یا شاہ نیک خو
اتنا ہی گھٹ گیا ہے مرے جسم کا لہو
روئے ہیں پھوٹ پھوٹ کے یہ میرے رو بہ رو
تر ہو گیا ہے آنسوؤں سے چاند سا گلو
دیکھا نہ تھا یہ میں نے جو حال اس کا آج ہے
حضرت تو جانتے ہیں کہ نازک مزاج ہے
شفقت سے آج آپ نے چومے حسن کے لب
بوسہ لیا نہ ان کے لبوں کا یہ کیا سبب
رتبے میں دونوں ایک ہیں یا سرورِ عرب
میں سچ کہوں یہ سن کے مجھے بھی ہوا عجب
اس کو جو ہو خوشی تو دل اس کا بھی شاد ہو
چھوٹے سے چاہیے کہ محبت زیاد ہو
آپ ان کے ناز اٹھاتے ہیں یا شاہ بحر و بر
پھر کس سے روٹھیں آپ سے روٹھیں نہ یہ اگر
اکثر انہیں چڑھایا ہے حضرت نے دوش پر
گیسو دیے ہیں ننھے سے ہاتھوں میں بیشتر
روٹھے تھے یہ سو قدموں پہ سر دھرنے آئے ہیں
منہ کے نہ چومنے کا گلا کرنے آئے ہیں
یہ کہہ کے پھر حسین سے بولیں بہ چشمِ تر
لو جا کے اب نبی کے قدم پر جھکاؤ سر
آئے حسین ہاتھ جو ننھے سے جوڑ کر
بے اختیار رونے لگے سید البشر
رہ رہ کے دیکھتے تھے علی و بتول کو
نزدیک تھا قلق سے غش آئے رسول کو
تھی آنسوؤں سے ریشِ مبارک تمام نم
فرط بکا سے خاک پہ جھکتے تھے دم بہ دم
گاہے ستوں سے لگ کے ہوئے راست گاہ خم
ہر لحظہ اضطراب زیادہ تھا صبر کم
ہو سکتا تھا نہ ضبط شۂ مشرقین سے
روتے تھے بار بار لپٹ کر حسین سے
شبیر رو کے کہتے تھے نانا نہ رویے
روئیں گے اب نہ ہم شۂ والا نہ رویے
ہلنے لگے گا عرش معلے ٰ نہ رویے
پھٹتا ہے اب ہمارا کلیجا نہ رویے
سو بار دن میں ہم تو منہ اشکوں سے دھوتے ہیں
حضرت ہمارے رونے پہ کاہے کو روتے ہیں
گھبرا گئے علی ولی شاہ بحر و بر
کی عرض فاطمہ نے جھکا کے قدم پہ سر
بیٹی نثار ہو گئی یا سید البشر
کیا وجہ ہے جو آپ ہیں اس طرح نوحہ گر
جلدی بتائیے کہ مجھے تاب اب نہیں
رونا خدا کے دوست کا یہ بے سبب نہیں
حضرت کو علمِ غیب ہے یا شاہِ انس و جاں
آئندہ و گزشتہ کا سب حال ہے عیاں
کیا آئی آج وحی خداوندِ دو جہاں
ہونا ہے جو حسین پہ مجھ سے کرو بیاں
فاقوں سے کاٹتی ہوں مصیبت جہان کی
کیوں بابا جان خیر تو ہے اس کی جان کی
بولے جگر کو تھام کے محبوب ذو الجلال
تجھ سے سنا نہ جائے گا اے فاطمہ یہ حال
کس منہ سے میں کہوں کہ قلق ہے مجھے کمال
زہرا شہید ہوئے ہوویں گے تیرے یہ دونوں لال
ماتم کی یہ خبر ابھی جبریل لائے تھے
سارے ملک حسین کے پرسے کو آئے تھے
الماس پی کے ہوئے گا بے جاں ترا حسن
یہ وجہ ہے کہ چومتا ہوں اس کا میں دہن
بھر جائے گا کلیجوں کے ٹکڑوں سے سب لگن
ہو گا زمردی ترے اس لال کا بدن
سوئے بہشت جب یہ جہاں سے سدھاریں گے
بد کیش تیر اس کے جنازے پہ ماریں گے
زہرا مجھے کلام کی طاقت نہیں ہے اب
حلق حسین چومنے کا کیا کہوں سبب
اک بن میں تین روز رہیں گے یہ تشنہ لب
کٹ جائے گا گلا یہی خنجر سے ہے غضب
نیزے پہ سر چڑھے گا ترے نورِ عین کا
گھوڑوں سے روند ڈالیں گے لاشہ حسین کا
روئے خبر یہ کہہ کے جو محبوب ذو المنن
گھبرا کے منہ حسین کا تکنے لگے حسن
زہرا پکاری ہائے لٹے گا مرا چمن
میں مر گئی دہائی ہے یا سرور زمن
یہ کیسی آگ ہے کہ مری کوکھ جل گئی
ہے ہے چھری کلیجے پہ زہرا کے چل گئی
فریاد یا نبی شۂ ابرار الغیاث
اے مرسلان حق کے مددگار الغیاث
اے بے کسوں کے وارث و سردار الغیاث
قدرت ہے سب طرح کی شۂ مشرقین کو
حضرت سے لوں گی اپنے حسن اور حسین کو
کس جرم پر یہ لال مرے قتل ہوں گے آہ
رو کر کہا رسولِ خدا نے کہ بے گناہ
کی عرض فاطمہ نے کہ اے عرشِ بارگاہ
بچوں کو میرے کیا نہ ملے گی کہیں پناہ
تلواریں کھینچ کھینچ کے ظالم جو آئیں گے
حضرت نہ کیا نواسوں کو اپنے بچائیں گے
آساں ہے کیا جو قتل کریں گے ستم شعار
کیا شیر حق کمر سے نہ کھینچیں گے ذو الفقار
اعدا پہ کیا چلے گا نہ دستِ خدا کا وار
بالوں کو کیا نہ کھولے گی زہرا جگر فگار
ٹکڑے جگر جو ہوئے گا مجھ دل دو نیم کا
پایہ نہ کیا ہلاؤں گی عرشِ عظیم کا
زہرا سے رو کے کہنے لگے شاہ نیک خو
بیٹی مجھے ستائیں گے تربت میں کینہ جو
اس وقت قتل ہوئیں گے یہ دونوں ماہ رو
دنیا میں جب نہ ہو گا علی اور نہ میں نہ تو
لاشے پہ مجتبیٰ کے تو شبیر روئے گا
شبیر جب مرے گا تو کوئی نہ ہوئے گا
چلائی سر پٹک کے یہ زہرا کہ ہے ستم
پیٹے گا کون تن سے جو نکلے گا اس کا دم
ماتم کی صف بچھائے گا کون اے شہ امم
پرسے کو کون آئے گا اس کے بہ چشمِ نم
ہم میں سے ایسے وقت جو کوئی نہ ہوئے گا
ہے ہے مرے حسین کو پھر کون روئے گا
بچے کی میرے تعزیہ داری کرے گا کون
منہ ڈھانپ ڈھانپ گریہ و زاری کرے گا کون
دریائے اشک چشم سے جاری کرے گا کون
امداد بعدِ مرگ ہماری کرے گا کون
ہو گا کہاں نبی کے نواسے کا فاتحہ
شربت پہ کون دیوے گا پیاسے کا فاتحہ
بولے نبی کہ آپ کو زہرا نہ کر ہلاک
فرما چکا ہے مجھ سے یہ وعدہ خدائے پاک
پیدا کریں گے قوم اک ایسی بہ روئے خاک
جو رات دن رہیں گے اسی غم میں درد ناک
بزمِ عزا میں آئیں گے وہ دور دور سے
تن خاک سے بنائیں گے دل ان کے نور سے
ہو گی انہیں سے مجلسِ ماتم کی زیب و زین
دیں گے انہیں وہ لب کہ رہے جس پہ وا حسین
آنکھیں وہ دیں گے رونے کو سمجھیں جو فرضِ عین
ہاتھ ایسے غیر سینہ زنی ہو جنہیں نہ چین
سامان تعزیت کے کبھی کم نہ ہوئیں گے
وہ حشر تک حسین کے ماتم میں روئیں گے
ہو گا عیاں فلک پہ محرم کا جب ہلال
رختِ سیاہ پہنیں گے بر میں وہ خوش خصال
کھولیں گی بیبیاں بھی سب اپنے سروں کے بال
ہر گھر میں ہو گا شور کہ ہے ہے علی کا لال
لیں گے صلے میں خلد ترے نورِ عین سے
آنسو عزیز وہ نہ کریں گے حسین سے
پیاسا شہید ہو گا جو تیرا یہ دل ربا
مومن سبیلیں رکھیں گے پانی کی جا بجا
ہووے گی شاد روح شہیدان کربلا
بھر بھر کے آب سرد پکاریں گے برملا
محبوبِ کبریا کے نواسے کی نذر ہے
پیاسے نہ جائیو کہ یہ پیاسے کی نذر ہے
کہنے لگی نبی سے بتول فلک جناب
ہے ہے میں کیا کروں مرے دل کو نہیں ہے تاب
اے بادشاہ کون و مکاں مالک الرقاب
درگاہ حق میں آپ کی ہے عرض مستجاب
کیجے دعا کہ خالقِ اکبر مدد کرے
اللہ یہ بلا مرے بچے کی رد کرے
بیٹی سے رو کے کہنے لگے شاہِ کائنات
روح الامیں نے مجھ سے تو یہ بھی کہی ہے بات
چاہو تو رد کرے یہ بلا رب پاک ذات
لیکن نہ ہوے گی مرے امت کی پھر نجات
محبوبِ حق نثار ترے نورِ عین پر
موقوف ہے یہ امر تو قتل حسین پر
اللہ رے صبر دختر محبوب کردگار
امت کا نام سن کے جھکایا سر ایک بار
خوشنود ہو کے کہنے لگے شاہ ذوالفقار
صدقے حسن حسین تصدق علی نثار
اس راہ میں نہ مال نہ دولت عزیز ہے
پیارے پسر نہیں ہمیں امت عزیز ہے
کہنے لگے حسین سے پھر شاہ بحر و بر
بتلا مجھے کہ کیا تری مرضی ہے اے پسر
نانا سے بولے چھوٹے سے ہاتھوں کو جوڑ کر
امت کے کام آئے تو حاضر ابھی ہے سر
وعدہ کو ہم نہ بھولیں گے گو خورد سال ہیں
چھوٹے نہیں ہیں مخبرِ صادق کے لال ہیں
روتے ہیں آپ کس لیے یا سیدِ امم
راضی ہیں ہم پہ راہِ خدا میں ہوں جو ستم
تلواریں بھی چلیں تو نہیں مارنے کے دم
امت پہ اپنے سر کو تصدق کریں گے ہم
ہم راست گو ہیں بات پہ جس وقت آتے ہیں
کہتے ہیں جو زباں سے وہی کر دکھاتے ہیں
بچپن میں جو زباں سے کہا تھا کیا وہ کام
جس وقت رن میں ٹوٹ پڑے شہ پہ فوجِ شام
گردن جھکا کے برچھیاں کھایا کیے امام
خوں میں قبا رسول کی تر ہو گئی تمام
تیغیں علی کے لال کے شانے پہ چل گئیں
چھاتی کے پار نیزوں کی نوکیں نکل گئیں
پھیری نہ تھی جو پشت مبارک دم مصاف
تھے دو ہزار زخم فقط سر سے تا بہ ناف
سید سے بے وطن سے زمانہ تھا بر خلاف
غل تھا کہ آج ہوتا ہے گھر فاطمہ کا صاف
سنبھلا نہ جائے گا خلف بو تراب سے
لو وہ قدم حسین کے نکلے رکاب سے
مینہ کی طرح برسنے لگے شاہ دیں پہ تیر
تھرا رہے تھے لگ کے تن نازنیں پہ تیر
دامن پہ تیر جیب پہ تیر آستیں پہ تیر
پہلو پہ تیغ سینہ پہ نیزہ جبیں پہ تیر
داغوں سے خوں کے رخت بدن لالہ زار تھا
شکل ضریح سینۂ اقدس فگار تھا
تر تھی لہو میں زلفِ شکن در شکن جدا
مجروح لعلِ لب تھے جدا اور دہن جدا
درپئے تھے نیزہ دار جدا تیغ زن جدا
کٹ کٹ کے ہو گیا تھا ہر اک عضو تن جدا
سی پارہ تھا نہ صدر فقط اس جناب کا
پرزے ورق ورق تھا خدا کی کتاب کا
کرتا تھا وار برچھیوں والوں کا جب پرا
تیغوں سے دم بھی لینے کی مہلت نہ تھی ذرا
نیزوں میں خوں نبی کے نواسے کا تھا بھرا
شمشیر و تیر نیزہ و خنجر کے ماورا
تھیں سختیاں ستم کی شہ خوش خصال پر
چلتے تھے سنگ فاطمہ زہرا کے لال پر
تھے دو ہزار جسم شۂ بحر و بر پہ زخم
ماتھے پہ زخم تیر کے تیغوں کے سر پہ زخم
گردن پہ زخم سینہ پہ زخم اور کمر پہ زخم
اور اس کے ماورا تھے بہتر جگر پہ زخم
گھوڑے پہ گہہ سنبھلتے تھے گہہ ڈگمگاتے تھے
غش آتا تھا تو ہرنے پہ سر کو جھکاتے تھے
گھوڑے پہ جب سنبھلنے کی مطلق رہی نہ تاب
ہاتھوں سے باگ چھوٹ گئی اور پاؤں سے رکاب
گرنے لگا جو خاک پہ وہ آسماں جناب
مرقد میں بے قرار ہوئی روح بو تراب
غل تھا کہ خاک پر شہ کون و مکاں گرا
بس اب زمیں الٹ گئی اور آسماں گرا
جلتی ہوئی زمیں پہ تڑپنے لگے امام
بے کس پہ ظالموں نے کیا اور اژدحام
اس وقت شمر سے یہ عمر نے کیا کلام
ہاں تن سے جلد کاٹ سرِ سرور انام
ڈریو نہ سن کے فاطمہ زہرا کی آہ کو
گل کر دے شمع قبر رسالت پناہ کو
یہ سنتے ہی چڑھائی ستمگر نے آستیں
خنجر کمر سے کھینچ کے آگے بڑھا لیں
تھے قبلہ رو جھکے ہوئے سجدے میں شاہ دیں
لب ہلتے دیکھے شاہ کے آیا وہ جب قریں
سمجھا کہ تشنگی سے جو صدمے گزرتے ہیں
اس وقت بد دعا مجھے شبیر کرتے ہیں
جھک کر قریب کان جو لایا تو یہ سنا
حق میں گناہ گاروں کے کرتے ہیں شہ دعا
جاری زبانِ خشک پہ یہ ہے کہ اے خدا
کر حاجتوں کو میرے محبوں کی تو روا
شیعوں کا حشر روزِ جزا میرے ساتھ ہو
میرا یہ خوں بہا ہے کہ ان کی نجات ہو
یہ سن کے مستعد ہوا وہ شہ کے قتل پر
زانو رکھا حسین کے سینے پہ بے خطر
گردن پہ پھیرنے لگا خنجر جو بد گہر
آئی صدا علی کی کہ ہے ہے مرے پسر
زہرا پکاری کچھ بھی نبی سے حجاب ہے
ظالم یہ بوسہ گاہ رسالت مآب ہے
کیوں ذبح میرے لال کو کرتا ہے بے گناہ
کیوں کاٹتا ہے میرے کلیجے کو رو سیاہ
کشتی کو اہلِ بیت نبی کی نہ کر تباہ
میں فاطمہ ہوں عرش ہلائے گی میری آہ
ہوئے گا حشر قتل جو یہ بے وطن ہوا
یہ مر گیا تو خاتمہ پنج تن ہوا
آواز اپنی ماں کی یہ زینب نے جب سنی
دوڑی نکل کے خیمے سے سر پیٹتی ہوئی
دیکھا کہ ذبح کرتا ہے حضرت کو وہ شقی
سر پیٹ کر یہ کہنے لگی وہ جگر جلی
ہے ہے نہ تین روز کے پیاسے کو ذبح کر
ظالم نہ مصطفی کے نواسے کو ذبح کر
بانو پکارتی تھی یہ کیا کرتا ہے لعیں
پیاسا ہے تین روز سے حیدر کا جا نشیں
چلاتی تھی سکینہ کہ جینے کی میں نہیں
بابا کو ذبح کرتا ہے کیوں اے عدوئے دیں
خنجر نہ پھیر چاند سی گردن پہ رحم کر
ابا کو چھوڑ دے مرے بچپن پہ رحم کر
زخموں سے چور چور ہے زہرا کا یادگار
جس چھاتی پر میں سوتی تھی اس پر ہے تو سوار
بابا کے حلق پر نہ پھرا اب چھری کی دھار
بدلے پدر کے سر کو مرے تن سے تو اتار
سید پہ تشنہ لب پہ ستم اس قدر نہ کر
پوتی ہوں فاطمہ کی مجھے بے پدر نہ کر
رو کر بیاں یہ کرتی تھی وہ سوختہ جگر
دے کر دہائی اہلِ حرم پیٹتے تھے سر
کرتا تھا ذبح شہ کو وہاں شمر بد گہر
فرماتے تھے یہ شاہ کہ پیاسا ہوں رحم کر
پانی دیا نہ ہائے نبی کے نواسے کو
جلاد ذبحِ کرنے لگا بھوکے پیاسے کو
آخر سر امامِ امم تن سے کٹ گیا
چلا کے فاطمہ نے یہ زینب کو دی صدا
میداں سے جلد لے کے سکینہ کو گھر میں جا
بے جرم کٹ گیا ترے ماں جائے کا گلا
مارا بظلم شمر نے پیاسے کو جان سے
میں لٹ گئی حسین سدھارے جہان سے
بس اے انیسؔ بزم میں ہے نالہ و فغاں
پوچھ ان کے دل سے جو ہیں سخن فہم نکتہ داں
حق ہے سنا نہیں کبھی اس حسن کا بیاں
گویا کہ یہ خلیق کی ہے سر بہ سر زباں
سچ ہے کہ اس زباں کو کوئی جانتا نہیں
جو جانتا ہے اور کو وہ مانتا نہیں