جب زلف کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی

میر انیس


جب زلف کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی
پردیس میں سادات پہ، آفت عجب آئی
فریاد کناں روح امیرِ عرب آئی
غل تھا کہ شب قتل شہ تشنہ لب آئی
سادات کو کیا کیا غمِ جانکاہ دکھائے
رات ایسی مصیبت کی نہ اللہ دکھائے
کاغذ پہ لکھے کیا قلم اس شب کی سیاہی
ہے چار طرف جس کی سیاہی سے تباہی
مرغان ہوا بر میں طپاں، بحر میں ماہی
تربت سے نکل آئے تھے محبوب الٰہی
فریاد کا تھا شور رسولان سلف میں
یثرب میں تزلزل تھا اداسی تھی نجف میں
صدمے سے ہوا رنگِ رخ ماہ کا کافور
اختر بھی بنے مردمک دیدۂ بے نور
غم چھا گیا، راحتِ دل عالم سے ہوئی دور
تصویر الم بن گئی جنت میں ہر اک حور
کہتے تھے ملک رات نہ ہووے گی اب ایسی
تاروں نے بھی دیکھی نہ تھی تاریک شب ایسی
شمع طرب محفل عالم تھی جو خاموش
تھی رات بھی شبیرؔ کے ماتم میں سیہ پوش
کیا غم تھا کہ شادی تھی ہر اک دل کو فراموش
ہر چشم کو تھا غم میں سمندر کی طرح جوش
مضطر تھے علیؔ اشکوں سے منہ دھوتی تھی زہراؔ
مقتل تھا جہاں شاہ کا، واں روتی تھی زہراؔ
تھا خانۂ غم خیمۂ شاہنشہ والا
آندھی یہ پریشاں تھی کہ دل تھا تہ و بالا
مشعل نہ ٹھہرتی تھی، نہ شمعوں کا اجالا
خیمہ بھی اندھیرے میں نظر آتا تھا کالا
خاک اڑتی تھی منہ پر، حرم شیرِ خدا کے
تھا چیں بجبیں فرش بھی جھونکوں سے ہوا کے
جنگل کی ہوا، اور درندوں کی صدائیں
تھراتی تھیں بچوں کو چھپائے ہوئے مائیں
دھڑکا تھا کہ دہشت سے نہ جانے کہیں جائیں
روتی تھی کوئی، اور کوئی پڑھتی تھی دعائیں
گودوں میں بھی راحت نہ ذرا پاتے تھے بچے
جب بولتے تھے شیر تو ڈر جاتے تھے بچے
بچوں کے بلکنے پہ حرم کرتے تھے زاری
غش ہو گئی تھی بالی سکینہؔ کئی باری
چلاتی تھی رو رو کے وہ شبیرؔ کی پیاری
یا حضرتِ عباسؔ چلی جان ہماری
افسوس کہ پانی کا تو قطرہ نہیں گھر میں
اور آگ لگی ہے مرے ننھے سے جگر میں
تھی سب سے سوا، بنت علی، مضطر و بیتاب
فق ہو گیا تھا شام سے منہ صورتِ مہتاب
مژگاں سے رخِ پاک پہ تھی، بارش خوں ناب
تلوار کلیجے پہ چلے جب تو کہاں تاب
اک کرب تھا بسمل کی طرح جان حزیں پر
اٹھتی تھی کبھی اور کبھی گرتی تھی زمیں پر
کہتی تھی کبھی، آج پیمبر نہیں ہے ہے
حال اپنا دکھاؤں کسے حیدرؔ نہیں ہے ہے
بیٹی پہ فلک ٹوٹا ہے ، مادر نہیں ہے ہے
شبیرؔ مصیبت میں تھے ، شبرؔ نہیں ہے ہے
دیکھا نہ سنا یہ جو ستم آج ہے لوگو
نازوں کا پلا پانی کو محتاج ہے لوگو
در پیش ہے کل فوج سمتگر سے لڑائی
یاں تھوڑے سے پیاسے ہیں، ادھر ساری خدائی
بے سر دیے رن سے نہ پھرے گا مرا بھائی
ہو جائے گی حیدرؔ کے بھرے گھر کی صفائی
اس غم سے سدا اشکوں سے منہ دھوتی تھیں اماں
کل دن وہ ہے جس دن کے لیے روتی تھی اماں
تھے دوسرے خیمہ میں ادھر سبطِ پیمبر
دربار میں حاضر تھے رفیقان دلاور
اک پہلو میں قاسمؔ تھے اور اک پہلو میں اکبرؔ
اکبرؔ کے ادھر لختِ دل زینبِ مضطر
شبیرؔ محبت سے سخن کرتے تھے سب سے
عباسؔ علی سامنے بیٹھے تھے ادب سے
سر گرم تھے مر جانے پہ، سب شاہ کے انصار
عباس سے یہ کہتا تھا، وہ کل کا مدد گار
تم رہیو ذرا خیمۂ ناموس سے ہشیار
ڈر ہے نہ کرے بے ادبی لشکرِ کفار
بے دینوں کو راحت مری منظور نہیں ہے
شب خوں جو ادھر سے ہو، تو کچھ دور نہیں ہے
یہ ذکر ابھی تھا کہ یکایک خبر آئی
اے چاند ید اللہ کے ، شب دوپہر آئی
حضرت کو ستاروں کی جو گردش نظر آئی
دل یادِ خدا کرنے لگا، چشم بھر آئی
فرمایا بڑا اجر ہے ، بیداری شب کا
اے تشنہ لبو وقت ہے یہ طاعت رب کا
اب عمر بھی آخر ہے ، نمازیں بھی ہیں آخر
بے توشہ پہونچتا نہیں، منزل پہ مسافر
ہر وقت ہے ربِ دو جہاں حاضر و ناظر
اجر ان کے مضاعف ہیں جو ہیں صابر و شاکر
مشکل نہ کسی رنج کو سمجھے نہ بلا کو
بندہ وہی بندہ ہے جو بھولے نہ خدا کو
نام اس کا رہے ورد، سفر ہو کہ حضر ہو
موجود سمجھ لے اسے جنگل ہو کہ گھر ہو
سجدے ہی کرے دکھ میں کہ راحت میں بسر ہو
تسبیح میں شب ہو، تو نمازوں میں سحر ہو
عشق گلِ تر ظلم کے خاروں میں نہ بھولے
معشوق کو تلواروں کی دھاروں میں نہ بھولے
چومے لب سوفار، جو سینے پہ لگیں تیر
دم عشق کا بھرتا رہے زیر دمِ شمشیر
زخموں کو یہ سمجھے ، کہ ملا گلشن توقیر
تکبیر کا نعرہ ہو زباں پر، دمِ تکبیر
کٹنے میں رگوں کے نہ صدا آہ کی نکلے
ہر رنگ میں بو الفت اللہ کی نکلے
شہ نے سخن معرفتِ حق جو سنائے
اشک آنکھوں میں ہر عاشقِ صادق کے بھر آئے
کچھ پیاس کا شکوہ بھی زباں پر نہیں لائے
سجادے وہیں لا کے دلیروں نے بچھائے
تکبیریں ہوئیں لشکر اللہ و نبی میں
سب محو ہوئے یاد جناب احدی میں
تسبیح کہیں تھی کہیں سجدے کہیں زاری
تھا صوت حسن سے کوئی قرآن کا قاری
کرتا تھا کوئی عرض کہ یا حضرتِ باری
اب صبح کو عزت ہے ترے ہاتھ ہماری
حرمت سے شریک شہدا کیجیو یا رب
تو حوصلۂ صبر، عطا کیجیو یا رب
ہم ہیں ترے محبوب کے پیارے کے مددگار
مرنے کے لیے آئے ہیں یا چھوڑ کے گھر بار
یہ بندۂ بے کس ہے مصیبت میں گرفتار
کر رحم کہ ہے ذات تری راحم و غفار
فاقوں کے سبب، جسم کی طاقت میں کمی ہے
تجھ سے طلب قوتِ ثابت قدمی ہے
بے کس ہیں مسافر ہیں، وطن دور ہے ، گھر دور
ہفتم سے ہمیں گھیرے ہے یہ لشکر مقہور
تیروں سے ہوں غربال کہ تیغوں سے بدن چور
احمدؔ کے نواسے سے جدائی نہیں منظور
پھر منہ کسے دکھلائیں جو سردار کو چھوڑیں
کیوں کر ترے مقبول کی سرکار کو چھوڑیں
مردوں کے لیے ننگ ہے تلواروں سے لڑنا
راحت ہو کہ ایذا، یہیں جینا، یہیں مرنا
تو چاہے تو مشکل نہیں کچھ سر سے گزرنا
اے کل کے مدد گار، مدد جنگ میں کرنا
فاقوں میں ہزاروں سے وغا ہو تو مزا ہے
کچھ حقِ نمک ہم سے ادا ہو تو مزا ہے
کرتے تھے مناجات ادھر یاور و انصار
پڑھتے تھے نمازِ شب ادھر، سیدِ ابرار
تھی نیت تسبیح بتول جگر افگار
آواز بکا خیمے سے آنے لگی یک بار
اکبرؔ سے اشارہ کیا مڑ کر، کہ یہ کیا ہے
کہ عرض پھوپھی جان کے رونے کی صدا ہے
یوں تو کئی راتوں سے وہ ہیں مضطر و بیتاب
راحت کی نہ صورت ہے نہ آرام کا اسباب
غش میں جو ذرا بند ہوئے ، دیدۂ پر آب
روتی ہوئی چونکی ہیں، ابھی دیکھ کے کچھ خواب
نعلین کہیں، چادر پر نور کہیں ہے
اس وقت سے بسمل کی طرح چین نہیں ہے
سب بیبیاں ہیں رو رہیں بچوں کو لیے پاس
ایک ایک کو اندیشہ ہے ، ایک ایک کو وسواس
جو پوچھتا ہے وجہ تو کہتی ہیں بصد یاس
لوگو مجھے شبیر کے بچنے کی نہیں آس
مانگو یہ دعا غیب سے بے کس کی مدد ہو
صدقے کرو مجھ کو کہ بلا بھائی کی رد ہو
ان کا تو یہ احوال ہے ، اماں کا یہ عالم
اشکوں کی جھڑی آنکھوں سے تھمتی نہ تھی اک دم
اصغرؔ کی بھی ہے فکر، سکینہ کا بھی ہے غم
شش ماہ کا بچہ بھی ہوا جاتا ہے بے دم
گودی میں اٹھائیں اسے یا اس کو سنبھالیں
دو روز کے فاقے میں وہ کس کس کو سنبھالیں
رو آتی ہیں عابدؔ کے سرہانے کبھی جا کر
گہوارۂ اصغرؔ پہ کبھی گرتی ہیں آ کر
قرآں کی ہوا دیتی ہیں غش میں اسے پا کر
بہلاتی ہیں، بیٹی کو کبھی اشک بہا کر
وہ کہتی ہے تا صبح یوں ہی روؤں گی اماں
بابا ہی جب آویں گے تو میں سوؤں گی اماں
بتلاؤ شہِ جن و بشر کیوں نہیں آتے
اب رات بہت کم ہے ، پدر کیوں نہیں آتے
آزردہ ہیں کچھ مجھ سے ، ادھر کیوں نہیں آتے
کیا آج وہیں سوئیں گے ، گھر کیوں نہیں آتے
اب پیاسوں کی فریاد بھی بابا نہیں سنتے
حضرت مرے رونے کی صدا کیا نہیں سنتے
رو کر علیؔ اکبر نے جو کی شہ سے یہ تقریر
پڑھتے ہوئے تسبیح گئے ، حضرتِ شبیرؔ
دیکھی جو نہ تھی دیر سے وہ چاند سی تصویر
قدموں پہ محبت سے گری دوڑ کے ہمشیر
بیتاب جو پایا بہت اس تشنہ دہن کو
شبیرؔ نے لپٹا لیا چھاتی سے بہن کو
فرمایا بہن تم نے بنایا ہے یہ کیا حال
نہ سر پہ عصابہ ہے نہ چادر ہے نہ رومال
ماتھا ہے بھرا خاک سے بکھرے ہوئے ہیں بال
پیٹو نہیں، جیتا ہے ابھی فاطمہؔ کا لال
دم تن سے مرا کٹ کے نکل جائے گا زینبؔ
رو لیجیو جب رونے کا وقت آئے گا زینبؔ
جیتا ہوں میں اور آہ ابھی سے یہ تلاطم
یہ کرب یہ دکھ درد، یہ زاری یہ تظلم
ہوتے ہیں مرے ہوش و حواس آئے ہوئے گم
خنجر کے تلے دیکھو گی کس طرح مجھے تم
بس صبر کرو جی سے گزر جائیں گے بچے
تڑپو گی تم اس طرح تو مر جائیں گے بچے
تلوار کسی نے ابھی تولی نہیں مجھ پر
سینہ ابھی تیروں سے مشبک نہیں خواہر
گردن پہ کسی نے ابھی پھیرا نہیں خنجر
مر جائے گا بھائی تمہیں ثابت ہوا کیوں کر
ہر چند کہ ساعت نہیں ٹلتی ہے قضا کی
بچ جاؤں تو کیا دور ہے قدرت سے خدا کی
زینبؔ نے کہا خوش ہوں جو میری اجل آئے
بھائی تمہیں اللہ اس آفت سے بچائے
خالق مجھے عابدؔ کی یتیمی نہ دکھائے
بھائی کی بلا لے کے بہن خلق سے جائے
وسواس طبیعت کو بہلنے نہیں دیتا
بے چین ہے دل مجھ کو سنبھلنے نہیں دیتا
آتا ہے سکینہؔ کی یتیمی کا، مجھے دھیان
ہر وقت بھرا گھر نظر آ جاتا ہے ، ویران
سمجھانے سے کچھ دل جو بہلتا ہے ، میں قربان
پھر جاتا ہے آنکھوں کے تلے موت کا سامان
بازو مرے کسنے کو رسن لاتا ہے کوئی
سر پر سے ردا کھینچے لیے جاتا ہے کوئی
منہ ڈھانپ کے بستر پہ جو سو جاتی ہوں دم بھر
تو چاکِ گریباں نظر آتے ہیں پیمبر
اماں کبھی چلاتی ہیں یوں کھولے ہوئے سر
بیٹی نہ بچے گا ترا مظلوم برادر
کیا لیٹی ہے بستر پہ کدھر دھیان ہے زینبؔ
شپیر اسی رات کا مہمان ہے زینبؔ
یہ ذکر ابھی تھا کہ سکینہؔ نے پکارا
سونا تو گیا آپ کے ہمراہ ہمارا
میں جاگتی ہوں اور جہاں سوتا ہے سارا
گردوں پہ چمکنے نہ لگے صبح کا تارا
نیند آئی ہے بیٹی کو سلا جائیے بابا
بس ہو چکیں باتیں اب ادھر آئیے بابا
حضرت نے کہا میں تری آواز کے قرباں
اللہ تم اب تک نہیں سوئی ہو مری جاں
غربت میں کہاں راحت و آرام کا ساماں
بن باپ کے تم کو تو نہیں چین کسی آں
اچھی نہیں عادت یہ نہ رویا کرو بی بی
پہلو میں کبھی ماں کے بھی سویا کرو بی بی
کیا ہووئے جو ہم گھر میں کسی شب کو نہ آئیں
مجبور ہوں ایسے کہ تمہیں چھوڑ کے جائیں
تم پاؤ نہ ہم کو، نہ تمہیں ہم کہیں پائیں
بی بی کہو پھر چھاتی پہ کس طرح سلائیں
جنگل میں بہت قافلے لٹ جاتے ہیں، بی بی
برسوں جو رہے ساتھ وہ چھٹ جاتے ہیں، بی بی
جب عمر تھی کم، ہم بھی چھٹے تھے یونہی ماں سے
سوتے تھے لپٹ کر یوں ہی، خاتون جناں سے
کوچ ان کا ہوا سامنے آنکھوں کے جہاں سے
ماتم سے ملیں وہ، نہ بکا سے ، نہ فغاں سے
یہ داغ یہ اندوہ و الم سب کے لیے ہیں
ماں باپ زمانے میں سدا کس کے جیے ہیں
رستہ وہ اجل کا ہے کہ ہوتا ہی نہیں بند
کوچ آج پدر کا ہے تو کل جائے گا فرزند
ہوتا ہے قلق فرقت اولاد میں وہ چند
کیا زور ہے بندے کا، جو مرضی خداوند
جو آئے ہیں دنیا میں وہ سب کوچ کریں گے
اس زیست کا انجام یہی ہے کہ مریں گے
یہ کہتے تھے حضرت کی صدا آئی اذاں کی
گلدستۂ اسلام پہ، بلبل نے فغاں کی
اک دم میں بہار اور ہوئی باغ جہاں کی
تلوار چلی گلشن انجم پہ خزاں کی
مہتاب ہوا گم فلکِ نیلوفری سے
پھولا گلِ خورشید، نسیمِ سحری سے
گرمی کی سحر اور وہ پھولوں کا مہکنا
مرغان چمن کا وہ درختوں پہ چہکنا
انجم کا وہ چھپنا کبھی اور گاہ چمکنا
وہ سرد ہوا اور وہ سبزے کا لہکنا
اس دشت میں روتی تھی جو شبنم شہِ دیں پر
تھا موتیوں کا فرشِ زمرد کی زمیں پر
جلوہ وہ دمِ صبح کا، وہ نور کا عالم
دلچسپ صدا نوبت و شہنا کی، وہ باہم
سرخی وہ شفق کی، افق چرخ پہ کم کم
وہ گل کے کٹوروں پہ در افشانی شبنم
خشکی میں بھی سردی سے ترائی کا سماں تھا
پر مالک گلزار جناں، تشنہ دہاں تھا
لشکر میں ادھر مورچے بندی کی ہوئی دھوم
یاں فرض ادا کرنے لگے عاشق قیوم
پیچھے تو جماعت تھی اور آگے شہِ مظلوم
صف بستہ ملائک ہیں، یہی ہوتا تھا معلوم
سب ساجد و راکع تھے شہنشاہ کے ہمراہ
تاباں تھے بہتر مہِ نو ماہ کے ہمراہ
خیمہ تھا فلک، آپ قمر، دوست ستارے
تارے بھی وہ تاروں کو فلک جن پہ اتارے
خم ہو گیا تھا، پیرِ فلک شرم کے مارے
کہتی تھی زمیں، اوج ہے طالع کو ہمارے
خورشید نہیں روشنی نیرِ دیں ہے
خود عرش کو دھوکا تھا، یہ میں ہوں کہ زمیں ہے
جو صف ہے وہ اک سطر ہے قران مبیں کی
دیوار ہے قبلہ کی طرف، کعبۂ دیں کی
کیا خوب جماعت ہے یہ ارباب یقیں کی
افلاک کی زینت ہے تو رونق ہے زمیں کی
کس طرح شہنشاہ سے وہ فوج جدا ہو
مشکل ہے کہ دریا سے کہیں موج جدا ہو
اس دم تھی یہ آواز پسِ پردہ قدرت
اے قدسیو دیکھو مرے بندوں کی عبادت
نہ پیاس کا شکوہ ہے ، نہ فاقوں کی شکایت
یہ زہد، یہ تقویٰ، یہ اطاعت، یہ ریاضت
کونین میں یہ صاحبِ اقبال و شرف ہیں
عالم ہوں کہ ان لوگوں کے دل میری طرف ہیں
کس عجز سے آگے مرے حاضر ہیں یہ بندے
دیکھو مرے محبوب کے ناصر ہیں، یہ بندے
مظلوم ہیں بے کس ہیں مسافر ہیں یہ بندے
تھوڑے نہ ہوں کس طرح کے شاکر ہیں یہ بندے
صادق ہیں ولی سے مرے ان سب کو ولا ہے
ان کا وہ صلہ ہے جو رسولوں کا ملا ہے
پرسش نہ لحد میں نہ حساب ان کے لیے ہے
یہ لائق رحمت ہیں، ثواب ان کے لیے ہے
موتی سے جو ہے صاف، وہ آب ان کے لیے ہے
میں جس کا ہوں ساقی، وہ شراب ان کے لیے ہے
اس نخل ریاضت کے ثمر ان کو ملیں گے
جو عرش کے نیچے ہیں وہ گھر ان کے ملیں گے
فارغ جو صلوٰۃ سحری سے ہوئے دیں دار
پوشاک پہننے کو اٹھے سیدِ ابرار
فرمانے لگے حضرتِ عباسؔ علمدار
ہاں غازیو اب تم بھی سجو جنگ کے ہتھیار
قرباں تمہیں ہونا ہے محمدؔ کے پسر پر
کمروں کو کسو، گلشنِ جنت کے سفر پر
آمادۂ شر لشکرِ کفار ہے کل سے
ہونا ہے تمہیں آج، ہم آغوش اجل سے
در پیش ہے جنگ و جدل اس فوج کے دل سے
آقا بھی کوئی دم میں نکلتے ہیں محل سے
ہاں صف شکنو وقت ہے نصرت کی دعا کا
کھلتا ہے پھریرا علمِ فوجِ خدا کا
ہم لوگ اسی روز کے مشتاق ہیں، کب سے
اب ہو گی ملاقات شہنشاہِ عرب سے
سیدانیاں تم سب کو دعا دیتی ہیں شب سے
صف باندھ کے آؤ، درِ دولت پہ ادب سے
فردوس میں نانا سے حضور آج ملیں گے
کوثر پہ تمہیں خلعتِ نور آج ملیں گے
اس مژدہ کو سنتے ہی مسلح ہوئے غازی
اصطبل سے آنے لگے جراروں کے تازی
شیر صفِ جنگاہ تھا، ایک ایک نمازی
نعرے تھے کہ قربان شہنشاہ حجازی
ڈیوڑھی پہ شگفتہ تھا چمنِ خلدِ بریں کا
خیمہ میں تلاطم تھا وداع شہِ دیں کا
تھے گرد حرم بیچ میں وہ عاشق حق تھا
مانند سحرِ رنگ ہر اک بی بی کا فق تھا
بانوے دو عالم کا جگر سینے میں شق تھا
زینب یہ تڑپتی تھی کہ حضرت کو قلق تھا
شبیرؔ کے پہلو سے نہ ہٹتی تھی سکینہؔ
بڑھتے تھے تو دامن سے لپٹتی تھی سکینہؔ
شہ کہتے تھے بی بی ہمیں اب جانے دو گھر سے
سینہ مرا شق ہوتا ہے ، لپٹو نہ پدر سے
وہ کہتی تھی سایہ جو یہ اٹھ جائے گا سر سے
ہے ہے میں تمہیں ڈھونڈ کے لاؤں گی کدھر سے
بیٹی کا سوا آپ کے کوئی نہیں بابا
شب بھر میں اسی خوف سے سوئی نہیں بابا
سمجھاتے تھے حضرت کہ میں صدقے مری پیاری
میداں سے ابھی آئیں گے ہم تو کئی باری
وہ کہتی تھی میں آپ کی مظلومی کی واری
ساماں نظر آتا ہے یتیمی کا ہماری
در پیش لڑائی نہیں گر فوجِ شقی سے
کیوں آپ سفارش مری کرتے تھے پھوپھی سے
اب آپ کے جانے سے تو ثابت ہے نہ آنا
کیوں کہتے تھے زینب اسے چھاتی سے سلانا
بانو مرے پیچھے ، نہ سکینہ کو رلانا
پانی جو میسر ہو تو پیاس اس کی بجھانا
بہلائیو جب رو کے مجھے یاد کرے گی
تڑپوں گا لحد میں جو یہ فریاد کرے گی
میں سنتی تھی عابدؔ سے جو کچھ کی تھی وصیت
اس گھر کی تباہی کی خبر دیتے تھے حضرت
ہے ہے یہ مری عمر یہ صدمہ یہ مصیبت
لے لو مجھے ہمراہ، گوارہ نہیں فرقت
ساتھ آپ کے جاؤں گی جو اس دار محن سے
کوئی مری گردن تو نہ باندھے گا رسن سے
نادان کی ان باتوں پہ گھر روتا تھا سارا
ماتم میں کسی دل کو نہ تھا، صبر کا یارا
حضرت کو بھی فرقت تھی نہ بیٹی کی گوارا
ڈیوڑھی تک اسے گود سے اپنی نہ اتارا
جس دم وہ چھٹی، جیتے ہی جی مرگئے شپیرؔ
کس درد سے روتے ہوئے باہر گئے شپیرؔ
جس دم درِ دولت پہ امیر امم آیا
پیٹے یہ حرم گھر میں کہ ہونٹوں پہ دم آیا
تسلیم کو اسلام کا، لشکر بہم آیا
کس صولت و اقبال و حشم سے علم آیا
جاتی تھی لچکنے میں ضیا عرش تک اس کی
خورشید کو پنجہ میں لیے تھی چمک اس کی
آپس میں یہ کہتے تھے رفیقان دلاور
دیکھیں یہ ہما سایہ فگن ہوتا ہے کس پر
اکبرؔ کے تو ہے نام پہ سالاری لشکر
عباسؔ کو دیں گے شہِ دیں منصب جعفرؔ
اک عشق ہے اس شیر سے سلطان امم کو
بھائی کو کبھی دیکھتے ہیں، گاہ علم کو
زینبؔ کے پسر مشورہ یہ کرتے تھے باہم
کیوں بھائی علم لینے کو ماموں سے کہیں ہم
تائید خدا چاہیے گو عمر میں ہیں کم
عہدہ تو ہمارا ہے یہ آگاہ ہے عالم
واقف ہیں سبھی حیدرؔ و جعفرؔ کے شرف سے
حق پوچھو تو حقدار ہیں ہم دونوں طرف سے
دادا بھی علمدار ہے ، نانا بھی علم دار
ہم اپنے بزرگوں کے ہیں، منصب کے طلب گار
کہتا تھا بڑا عرض کا موقع نہیں زنہار
ہیں بادشہ کون و مکاں مالک و مختار
عہدہ تو بڑا یہ ہے کہ ماموں پہ فدا ہوں
چپکے رہو، اماں نہ کہیں سن کے خفا ہوں
مطلب نہ علم سے نہ حشم سے ہمیں کچھ کام
مٹ جائیں نشاں، بس یہی عہدہ ہے یہی نام
یہ سر ہوں نثار قدم شاہ خوش انجام
عزت رہے بھائی، یہ دعا ہے سحرو شام
آقا جسے چاہیں علمِ فوجِ خدا دیں
مشتاق اجل ہیں ہمیں مرنے کی رضا دیں
روتی تھی جو پردے کے قریں زینبؔ دلگیر
سب اس نے مفصل یہ سنی بیٹوں کی تقریر
فضہؔ سے یہ کہنے لگی، وہ صاحب توقیر
دونوں کو اشارے سے بلا لے کسی تدبیر
کچھ کہنا ہے سن لیں اسے فرصت انہیں گر ہو
عباسؔ نہ دیکھیں نہ شہِ دیں کو خبر ہو
یہ کہتی تھی زینبؔ کہ خود آئے وہ نکو کار
چھوٹے سے یہ فرمانے لگیں زینبؔ ناچار
کیا باتیں ابھی بھائی سے تھیں، اے مرے دلدار
اس وقت میں ہو کون سے منصب کے طلب گار
سمجھے نہ کہ مادر عقب پردہ کھڑی ہے
گھر لٹتا ہے میرا، تمہیں منصب کی پڑی ہے
اللہ بڑا عزم کیا، باندھ کے تلوار
بچو! تمہیں ایسا نہ سمجھتی تھی میں زنہار
دیکھو ابھی تم دونوں سے ہو جاؤں گی بے زار
کچھ کہیو نہ ماموں سے خبردار! خبردار
کیا دخل تمہیں امر میں سلطان امم کے
دیکھوں گی نہ پھر منہ، جو گئے پاس علم کے
کچھ اور ہی تیور ہیں علم نکلا ہے جب سے
تم کون ہو جو آگے بڑھے جاتے ہو سب سے
استادہ ہو، جا کر عقبِ شاہ، ادب سے
عہدہ ہے یہ جس کا مجھے معلوم ہے شب سے
اس امر میں خاطر نہ کریں، اور کسی کی
میں خوش ہوں بجا لائیں وصیت کو علیؔ کی
دو روز سے بھائی پہ مرے ظلم و ستم ہے
تم فکر علم میں ہو مجھے سخت الم ہے
چھوٹے سے ہیں قد، سن بھی تمہارا ابھی کم ہے
کھیل اس کو نہ سمجھو یہ محمدؔ کا علم ہے
ہرگز نہ ابھی کچھ شہِ ذی جاہ سے کہنا
کہنا بھی تو رخصت کے لیے شاہ سے کہنا
مانا کہ پہونچتا ہے تمہیں منصب جعفرؔ
آقا کی غلامی سے ہے عہدہ کوئی بڑھ کر
چھوٹا مرا بھائی بھی ہے ، بیٹوں کے برابر
عاشق کا تو عاشق ہے ، برادر کا برادر
بگڑوں گی گلہ گر کوئی اسلوب کرو گے
عباس سے کیا تم مجھے ممجوب کرو گے
زینبؔ نے عتابانہ جو کی ان سے یہ گفتار
یوں کہنے لگے ، جوڑ کے ہاتھوں کو وہ دلدار
شاہوں سے غلاموں نے بھی کی ہے ، کبھی تکرار
مالک ہیں جسے چاہیں علم دیں، شہِ ابرار
رخصت کے لیے تیغ و سپر باندھے ہوئے ہیں
ہم صبح سے مرنے پہ کمر باندھے ہوئے ہیں
زینبؔ نے کہا لے کے بلائیں کہ سدھارو
بس اب مرا دل شاد ہوا اے مرے پیارو
ماں صدقے گئی، سر قدم شاہ پہ وارو
ہو عید مجھے گر عمرؔ و شمرؔ کو مارو
یہ وقت ہے امداد امامِ ازلی کا
دے چھوٹے سے ہاتھوں میں خدا زور علیؔ کا
صدقے گئی سن لو کہ میں کہتی ہوں جتا کر
تم پہلے فدا کیجیو سرِ شہ کے قدم پر
میدان میں زخمی ہوئے گر قاسمؔ و اکبرؔ
پھر تم مرے فرزند نہ میں دونوں کی مادر
جب دل ہوا ناراض تو فرزند کہاں کے
کس کام کا وہ لعل جو کام آئے نہ ماں کے
ان میں سے اگر رن کی طرف ایک سدھارا
زہراؔ کی قسم منہ نہ میں دیکھوں گی تمہارا
جس وقت سنوں گی کہ سر ان دونوں نے وارا
اس وقت تمہیں ہو گا مرا دودھ گوارا
بے جاں ہوئے بعد ان کے ، تو ماتم نہ کروں گی
دیکھو جو مروں گی بھی تو ناراض مروں گی
ہیں دونوں بھتیجے ، مرے پیارے مرے محبوب
تم ان پہ تصدق ہو، یہی ہے مجھے مطلوب
جینا نہیں بہتر کسی صورت، کسی اسلوب
بے سر دیے دودھ اپنا میں بخشوں تمہیں، کیا خوب
ایذا جو اٹھاؤ گے تو راحت بھی ملے گی
جب آئیں گی لاشیں تو یہ دولت بھی ملے گی
دیکھو کہے دیتی ہوں خبردار! خبردار
جیتے جو رہے دودھ نہ بخشوں گی میں زنہار
شیروں کے یہ ہیں کام کھنچے جس گھڑی تلوار
رکھ دیویں گلا بڑھ کے ، تہِ خنجرِ خوں خوار
توڑی ہیں صفیں جنگ میں جب کھیت پڑے ہیں
جنات کے لشکر سے علیؔ یوں ہی لڑے ہیں
اعدا کو مرے دودھ کی تاثیر دکھاؤ
اجلالِ حسن شوکتِ شبیر دکھاؤ
جعفرؔ کی طرح جوہرِ شمشیر دکھاؤ
تن تن کے ید اللہ کی تصویر دکھاؤ
خورشیدِ امامت سے قرابت میں قریں ہو
تم شیر ہو شیروں کے حسینوں کے حسیں ہو
جعفر سے نمودار کے دلبر ہو دلیرو
حیدر سے دلاور کے دلاور ہو دلیرو
جرار ہو، کرار ہو، صفدر ہو دلیرو
ضرغام ہو، ضیغم ہو، غضنفر ہو دلیرو
تیروں سے جوانوں کے جگر توڑ کے آؤ
خیبر کی طرح کوفے کا در توڑ کے آؤ
خندق کی لڑائی کی طرح جنگ کو جھیلو
بچے اسد اللہ کے ہو، جان پہ کھیلو
تیغوں میں دھنسو، چھاتیوں سے نیزوں کو ریلو
کوفے کو تہِ تیغ کرو، شام کو لے لو
دو اور جلا آئینۂ تیغِ عرب کو
لو روم کو قبضے میں تو قابو میں حلب ہے
خاقاںؔ کا رہا تخت نہ قیصرؔ کا رہا تاج
ہاں غازیو! چین و حبش و زنگ سے لو باج
چڑھنا ہے لڑائی پہ جواں مردوں کو معراج
گیتی تہ و بالا ہو وہ تلوار چلے آج
یوں آئیو چار آئینہ پہنے ہوئے بر میں
جس طرح علیؔ بعد ظفرؔ آتے تھے گھر میں
میلے نہ ہوں تیور، یہ سپاہی کے ہنر ہیں
جس کے ہیں، بس اس کے ہیں، جدھر ہیں بس ادھر ہیں
گہ عطر میں ڈوبے ہیں، گہے خون میں تر ہیں
صحبت میں مصاحب ہیں، لڑائی میں سپر ہیں
وہ اور کسی سے نہ جھکیں گے نہ جھکے ہیں
عزت میں نہ فرق آئے کہ سر بیچ چکے ہیں
یہ سن کے جو نکلے وہ جری خیمے سے باہر
کس پیار سے منہ دونوں کا تکنے لگے سرور
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ اے سبطِ پیمبر
تیار ہے سب قبلۂ کونین کا لشکر
جلدی ہے لڑائی کی ادھر فوجِ ستم کو
ارشاد جسے ہو وہ بڑھے لے کے علم کو
شہ بولے کہ عباسؔ دلاور کو بلاؤ
پیارے مرے محبوب برادر کو بلاؤ
عاشق کو مددگار کو یاور کو بلاؤ
جلدی مرے حمزہؔ مرے جعفرؔ کو بلاؤ
یہ اوج، یہ رتبہ، یہ حشم اس کے لیے ہے
زیب اس سے علم کی ہے ، علم اس کے لیے ہے
سب تکنے لگے صورتِ عباس فلک جاہ
نازاں ہوا خود اوج پہ اپنے علمِ شاہ
یعنی مرا عامل ہے نشانِ اسد اللہ
بالیدہ تھا پرچم، تو پھریرا تھا ہوا خواہ
جان آ گئی تھی سنتے ہی اس خوش خبری کو
پنجہ بھی اشارے سے بلاتا تھا جری کو
خوش ہو کے یہ عمو کو پکارے علیؔ اکبر
جلد آئیے یاد آپ کو فرماتے ہیں سرور
حاضر ہوا جوڑے ہوئے ہاتھوں کو ہو صفدر
ارشاد کیا شہ نے علم بھائی کو دے کر
رکھیے اسے کاندھے پہ، یہ ہے آپ کا عہدہ
لو بھائی مبارک ہو تمہیں باپ کا عہدہ
بوسہ دیا عباسؔ دلاور نے علم پر
تسلیم کی اور رکھ دیا سرِ شہ کے قدم پر
کی عرض کہ قربان اس الطاف و کرم پر
سو سر ہوں تو صدقے میں شہنشاہِ امم پر
ادنیٰ جو ابھی تھا اسے اعلیٰ کیا مولا
قطرے کو ترے فیض نے دریا کیا مولا
اس چترِ فلک قدر کا سایہ مرے سر پر
اس دھوپ میں ہو گا، پہ پھریرا مرے سر پر
یہ ابر مرے سر پہ، یہ طوبیٰ مرے سر پر
قائم رہیں لاکھوں برس آقا مرے سر پر
سلطانِ دو عالم کی غلامی کے صلے ہیں
سب اوج یہ نعلین اٹھانے سے ملے ہیں
حضرت نے کہا رو کے یہ کیا کہتے ہو پیارے
حاضر ہے اگر جان بھی کام آئے تمہارے
حصہ یہ تمہارا تھا سو پہونچا تمہیں بارے
مالک ہو تمہیں، ہم تو ہیں اب گور کنارے
تھا دل میں جو کچھ وہ بخدا ہو نہیں سکتا
بھائی ترا حق مجھ سے ادا ہو نہیں سکتا
یہ کہہ کے بڑھے سرورِ دیں جانب توسن
ہتیار لگائے ہوئے ، پہنے ہوئے جوشن
اسوار ہوئے آپ، جو گردان کے دامن
اللہ رے ضیا، خانۂ زیں ہو گیا روشن
وہ پاؤں رکابوں کے لیے باعثِ ضو تھے
خورشید کے قدموں کے تلے دو مہِ نو تھے
رانوں کے اشارے سے لگا کوندنے ، شبدیز
اسوار کے دل کا تھا اشارہ اسے مہمیز
گرما کے جو شبیرؔ نے تازی کو کیا تیز
اعدا پہ چلا غول سواروں کا، جلو ریز
ایک ایک جوانِ عربی، رشکِ ملک تھا
اللہ کے لشکر کا علم، سر بہ فلک تھا
کیا فیضِ سواری تھا کہ زر ریز تھی سب راہ
طالع تھا ادھر مہر، ادھر تھا علمِ شاہ
مابین دو خورشید تھی، فوج شہِ ذی جاہ
پنجے پہ تجلی تھی، کہ اللہ ہی اللہ
بالا تھی چمک، مہرِ منور کی چمک پر
ضو اس کی زمیں پر تھی، ضیا اس کی فلک پر
ایک ایک جواں، زیورِ جنگی کو سنوارے
نیزوں کی چمک اور وہ سمندر کے طرارے
جعفرؔ کے جگر بند، ید اللہ کے پیارے
رستم سے ہر اک جنگ کرے شیر کو مارے
سیاف ہو مرحبؔ سا، تو شمشیر سے ماریں
ارجنؔ سے کماندار کو، اک تیر سے ماریں
کم سن کئی لڑکوں کا جدا غول تھا سب سے
سوئے بھی نہ تھے ، ولولۂ جنگ میں ، شب سے
رو کے ہوئے باگوں کو، شہِ دیں کے ادب سے
اعدا کی طرف دیکھتے تھے ، چشمِ غضب سے
ہتھیار جو باندھے تھے تو کیا تن پہ کھلے تھے
سب نیمچے تولے ہوئے مرنے پہ تلے تھے
وہ چاند سا منہ، اور وہ گورے بدن، ان کے
شرمندہ ہو غنچے بھی، وہ نازک دہن ان کے
یوسف کی طرح عطر فشاں پیرہن ان کے
مرکر وہی کپڑے ہوئے آخر کفن ان کے
کیا حسنِ عقیدت تھا عجب دل کے جواں تھے
آقا پہ فدا ہونے کو سب ایک زباں تھے
عمریں تو کم و بیش، یہ سب گیسوؤں والے
اک غول میں تھے چاند کئی اور کئی ہالے
ذی مرتبہ سیدانیوں کو گود کے پالے
غنچہ تھا وہ سب، اکبرؔ گل رو کے حوالے
ان تازہ نہالوں میں نمودار یہی تھے
اس گلشنِ یک رنگ کے مختار یہی تھے
مقتل کو جو پر نور کیا، عسکرِ دیں نے
دیکھا طرفِ چرخ، حقارت سے زمیں نے
اونچا نہ کیا سر فلکِ ماہِ جبیں نے
کی فرش پہ حسرت سے نظر عرشِ بریں نے
اٹھ اٹھ کے چمک اپنی دکھانے لگے ذرے
خورشید کے پہلو کو دبانے لگے ذرے
کھولا جو پھریرے کو علمدار جری نے
لوٹے گلِ فردوس، نسیمِ سحری نے
تاروں کو اتارا، فلکِ نیلوفری نے
پرچم جو کھلا کھول دیے بال پری نے
عیسی نے پکارا کہ نثار اس کے چشم کے
خورشید نے منہ رکھ دیا پنجے پہ علم کے
ترتیبِ صفِ فوج کا جس دم ہوا اعلام
باندھی علیؔ اکبر نے صفِ لشکر اسلام
ظاہر جو ہوئی شانِ جوانانِ گل اندام
کوفے کے نشاں جھک گئے ، کانپی سپہ شام
اللہ رے شوکت شرفا و نجبا کی
اسلام کا لشکر تھا کہ قدرت بھی خدا کی
ناگاہ بجا طبل، بڑھا لشکرِ سفاک
تا چرخ گیا، غلغلۂ کوس شغب ناک
فریاد سے قرنا کی ہلا گنبدِ افلاک
تھرا گیا آواز دہل سے کرۂ خاک
نوبت تھی زبس قتلِ امامِ مدنی کی
صاف آتی تھی تاشوں سے صدا سینہ زنی کی
واں شور تھا باجوں کا ادھر نعرۂ تکبیر
ایک ایک جری جھومتا تھا تول کے شمشیر
نگاہ سوئے فوجِ خدا آنے لگے تیر
عباسؔ علمبدار نے دیکھا رخِ شبیر
کی عرض کہ لڑنے کو شریر آتے ہیں مولا
کیا حکم ہے اب پیاسوں پہ تیر آتے ہیں مولا
شہ نے کہا شرم آتی ہے کیا حکم میں دوں آہ
ہفتادِ دو تن یاں ہیں، ادھر سیکڑوں گمراہ
غازی نے یہ کی عرض کہ اے گل کے شہنشاہ
یہ شیر نیستان علی ہیں، تو وہ روبارہ
لاکھوں ہیں تو کیا ڈرہے شجاعانِ عرب کو
اقبال سے آقا کے بھگا دیتے ہیں سب کو
فرمایا کہ فاقے سے ہے ، سارا مرا لشکر
پانی نہیں ملتا کہ لبِ خشک کریں تر
بہتر ہے اگر پہلے کٹے تن سے مرا سر
غازی نے کہا شیر گرسنہ ہیں، یہ صفدر
حملوں سے الٹ دیں گے پرے فوجِ عدو کے
بھوکے ہیں یہ زخموں کے ، پیاسے ہیں لہو کے
حضرت نے کہا خیر! لڑو فوجِ ستم سے
معلوم ہے سب آج جدا ہوویں گے ہم سے
دنیا سے نہ مطلب ہے ، نہ کچھ جاہ و حشم سے
کٹ جائے گا اپنا بھی گلا، تیعِ دو دم سے
مقبول ہیں وہ، جو مری امداد کریں گے
اس جنگ کو بھی لوگ، بہت یاد کریں گے
جس دم یہ سنی، قبلۂ کونین کی گفتار
جانباز بڑھے ، فوج سے چلنے لگی تلوار
تھے پیاسوں کے حملے غضبِ حضرتِ قہار
چوٹی کے جواں بھاگ گئے پھینک کے تلوار
کون آنکھ ملا سکتا تھا، شیروں سے عرب کے
جب کرتے تھے نعرے قدم اٹھ جاتے تھے سب کے
لڑتا تھا غضب ایک کے بعد ایک وفادار
دن چڑھتا تھا یاں، گرم تھا واں موت کا بازار
سر بیچتے تھے ، جنسِ شہادت کے طلبگار
بڑھ بڑھ کے خریدار پہ گرتا تھا خریدار
لیں پہلے ، ہم ایک ایک کی جاں اس کی بڑی تھی
عقبیٰ کا جو سودا تھا تو قیمت بھی کڑی تھی
آیا جو عزیزوں کے لیے موت کا پیغام
فرزندوں نے جعفرؔ کے بڑے رن میں کیے کام
اولاد عقیل آ چکی شبیرؔ کے جب کام
لڑنے کو گئے مسلمِ بیکس کے گل اندام
تھا حشر بپا ندیاں بہتی تھیں لہو کی
بچوں نے الٹ دی تھیں صفیں فوجِ عدو کی
لشکر میں تلاطم تھا غضب چلتی تھی تلوار
بیتاب تھے یاں، زینب ناشاد کے دلدار
منہ دیکھ کے حضرت کا یہی کہتے تھے ہر بار
ہم جائیں گے بعد ان کے سوئے لشکرِ کفار
جی جائیں جو مولا ہمیں مرنے کی رضا دیں
ایسا نہ ہو قاسمؔ کو حضور اذنِ وغا دیں
کچھ ان سے کہا چاہتے تھے سرورِ ذی شان
جو غل ہوا مارے گئے مسلمؔ کے دل و جان
لاشے بھی ادھر آ چکے ، جب خون میں غلطاں
پھر ہاتھوں کو جوڑا کہ ملے رخصت میداں
شہ نے کہا یہ داغ تو دشوار ہے ہم پر
ان دونوں نے سر رکھ دیے ماموں کے قدم پر
حضرت نے کہا ماں سے بھی ہو آئے ہو رخصت
کیا کہتے ہو لٹوا دوں میں ہمشیر کی دولت
مایہ ہو تمہیں اس کا، تمہیں اس کی بضاعت
چھوٹے نے یہ حضرت سے کہا تھام کے رقت
جھوٹے نہیں ہم، آپ ابھی پوچھ لیں سب سے
اماں تو رضا دے چکی ہیں، مرنے کی شب سے
بچوں نے جو کی جوڑ کے ہاتھوں کو یہ تقریر
ان دونوں کا منہ دیکھ کے رونے لگے شبیرؔ
فرمایا چھڑاتا ہے ، تمہیں بھی فلکِ پیر
اچھا میں رضا مند ہوں، جو مرضی ہمشیر
وہ سیدۂ پاک نواسی ہے نبی کی
فیاض کی ہمشیر ہے ، بیٹی ہے سخی کی
یہ سن کے جھکے آخری تسلیم کو ذی جاہ
خورشید کے آگے مہِ نو بن گئے دو ماہ
کی سوئے فلک دیکھ کے شبیرؔ نے اک جاہ
دو شیر چلے گھوڑوں پر چڑھ کر سوئے جنگاہ
ماں ڈیوڑھی سے چلائی کہ رخصت ہو مبارک
سرکارِ شہنشاہ سے ، خلعت ہو مبارک
سلطانِ دو عالم نے مخلع کیا واری
تم جاتے ہو یا جاتی ہے دولہا کی سواری
پروان چڑھے ، ختم ہوئیں شادیاں ساری
لو دور سے لیتی ہوں بلائیں، تمہاری
صدقے گئی نیزوں کو ہلاتے ہوئے جاؤ
شکلیں مجھے پھر پھر کے دکھاتے ہوئے جاؤ
تسلیم کو گھوڑوں سے جھکے ، دونوں وہ گل رو
دل ماں کا یہ امڈا کہ ٹپکنے لگے آنسو
باگیں جو اٹھائیں تو فرس بن گئے ، آہو
پھر دیکھنے پائی نہ انہیں زینب خوش خو
میداں کی طرف یاس سے ماں رہ گئی تک کر
پنہاں ہوئے بدلی میں ستارے سے چمک کر
میداں میں عجب شان سے وہ شیرِ نر آئے
گویا کہ بہم حیدرؔ و جعفرؔ نظر آئے
غل پر گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
یوسف سے فزوں حسن گرانمایہ ہے ان کا
یہ دھوپ بیاباں میں نہیں، سایہ ہے ان کا
وہ چاند سے منہ، اور وہ گیسوئے معنبر
وہ بدر سے رخسار، زہے قدرتِ داور
سب شان یداللہ کی، سب شوکت حیدر
چتون وہی، غصہ وہی، سارے وہی تیور
یہ دبدبہ کس صاحبِ شمشیر نے دیکھا
دیکھا جسے ، معلوم ہوا شیر نے دیکھا
تن تن کے جو شان اپنی دکھاتے تھے وہ ذی جاہ
چھاتی سے لگا لیتے تھے دونوں کو ید اللہ
شمشاد سے قامت، نہ دراز اور نہ کوتاہ
کھیلے ہوئے تیغوں میں فنِ جنگ سے آگاہ
ناخن سے دلیروں کے سب اندازِ وغا تھے
بچے تھے مگر بچۂ ضرغامِ خدا تھے
تھے حسن میں ان دونوں کے آئینہ رو ایک
پیشانی و ابرو و سر و صدر و گلو ایک
شان ایک، شکوہ ایک، جو رنگ ایک، تو بو ایک
دل ایک، جگر ایک، جسد ایک، لہو ایک
اور ان سا کوئی غرب سے تا شرق نہیں ہے
دو ٹکڑے ہیں اک سیب کے ، کچھ فرق نہیں ہے
پڑھنے لگے اشعارِ رجز جب وہ دلاور
اللہ ری فصاحت فصحا ہو گئے ششدر
ہر بیت تھی دشمن کے لیے تیغِ دو پیکر
ہر مصرعِ برجستہ میں تھی تیزیِ خنجر
دے کون جواب ان کا کہ دم بند تھا سب کا
واں قافیہ تھا تنگ شجاعانِ عرب کا
اظہارِ نسب میں جو محمدؔ کا لیا نام
سب پڑھنے لگے صل علی صاحبِ اسلام
آگے جو بڑھے نامِ علی کے کے وہ گلفام
دل ہل گئے تھرانے لگا روم سے تا شام
جعفرؔ کا جو کچھ ذکر کیا بعد علیؔ کے
مجرے کو علم جھک گئے سب فوجِ شقی کے
آغاز تھا ذکر شرف حضرتِ شبیرؔ
ڈنکے پہ ادھر چوٹ لگی، چلنے لگے تیر
اس وقت بڑے بھائی نے کی چھوٹے سے تقریر
تلوار علم کیجیے اب کس لیے تاخیر
کہتے تو جدا ہو کے ستمگاروں پہ جائیں
اسواروں میں ہم، آپ کمانداروں پہ جائیں
فرمایا بڑے بھائی نے ہنس کر، نہیں بھائی
تم جان ہو، دشوار ہے دم بھر کی جدائی
ہو جاتی ہے اک آن میں، ہر صف کی صفائی
کر دیتے ہیں سر، کون سی ایسی ہے لڑائی
بازو ہوں قوی، ہاتھ سے گر ہاتھ نہ چھوٹے
سر تن سے اتر جائے ، مگر ساتھ نہ چھوٹے
نانا کی طرح، فوج پہ حملے کریں، آؤ
تلواروں میں تن تن کے چلو، برچھیاں کھاؤ
ان چھوٹے سے ہاتھوں کا ہمیں، زور دکھاؤ
ہم سینہ سپر تم پہ ہوں، تم ہم کو بچاؤ
ہم شیروں پہ رستم کا بھی منہ پڑ نہ سکے گا
جب دو ہوئے اک دل تو کوئی لڑ نہ سکے گا
چھوٹے نے کہا جوڑ کے ہاتھوں کو کہ، بہتر
بس کھینچ لیے نیمچے ، دونوں نے برابر
دو بجلیاں کوندیں کہ لرزنے لگے لشکر
نیزوں کے نیستاں میں در آئے وہ غضنفر
برباد کیا رو میں سواروں کو دبا کے
رہوار بھی اسوار تھے گھوڑوں پہ ہوا کے
ان چھوٹی سی تلواروں کے تھے کاٹ نرالے
تھیں کہنیاں پہونچوں سے جدا، ہاتھوں سے بھالے
مسل اپنی جمائے تھے جو بے مثل رسالے
تھے جائزہ ان سب کا یہی دیکھنے والے
ناز اپنے ہنر پر تھا شجاعانِ عرب کو
نیزوں کو قلم کر کے ندارد کیا سب کو
موت آئی ادھر، نیمچے دونوں جدھر آئے
جب ہاتھ بڑھا، پاؤں پہ کٹ کٹ کے سر آئے
گر سینے تک آئے تو، کبھی تا کمر آئے
خالی نہ پھرے ، جس پہ گئے ، خوں میں بھر آئے
ہر نیمچہ، بجلی تھا ستمگاروں کے حق میں
ڈوبے ہوئے تھے دو مہِ نو، خوں کی شفق میں
اٹھتی تھی نہ ڈر سے کسی خوں خوار کی گردن
سر خود کا جھک جاتا تھا، تلوار کی گردن
دو چار کے منہ کٹ گئے ، دو چار کی گردن
اسوار کا سر اڑ گیا، رہوار کی گردن
دو نیمچے بجلی سے گزرتے تھے کمر سے
آدھے ہوئے جاتے تھے لعیں جان کے ڈر سے
دو چھوٹی سی تیغوں سے قیامت نظر آئی
معصوموں کے ہاتھوں سے کرامت نظر آئی
سر کٹنے کی، اعدا کے علامت نظر آئی
لو ہے کی سپر بھی نہ سلامت نظر آئی
بے وجہ نہ پھر جاتے تھے منہ اہلِ جفا کے
دریا کے تھپیڑے تھے ، طمانچے تھے قضا کے
گردن سے بڑھے کاٹ کے پیکر نکل آئے
جوشن کو دکھاتے ہوئے جوہر نکل آئے
چار آئینہ میں تیر کے باہر نکل آئے
صابون سے دو تار برابر نکل آئے
محراب کے نیچے کسے جھکتے نہیں دیکھا
مچھلی کو بندھے پانی میں رکتے نہیں دیکھا
ہر غول میں غلطاں و تپاں تھے سرو پیکر
دستانے کہیں تھے ، کہیں ڈھالیں، کہیں مغفر
جب نیمچے ان دونوں کے اٹھتے تھے برابر
منہ خوف سے ڈھالوں میں چھپاتے تھے ستم گر
روکے انہیں، طاقت یہ نہ تھی پیر و جواں کی
صورت نظر آنے لگی تیغِ دو زباں کی
غارت تھی وہ صف جس سے وغا کر کے پھرے وہ
دو ہاتھ میں سو سو کو فنا کر کے پھرے وہ
سرداروں کے سر تن سے جدا کر کے پھرے وہ
ہر غول میں اک حشر بپا کر کے پھرے وہ
غل تھا کہ پرے ٹوٹے ہوئے جم نہیں سکتے
سر کٹنے کی دہشت سے قدم تھم نہیں سکتے
گھوڑے تھے چھلاوا، کبھی یاں تھے کبھی واں تھے
پتلی میں تو پھرتے تھے ، پر آنکھوں سے نہاں تھے
یاں تھے جو سبک رو تو ادھر گرم عناں تھے
بجلی تھے کسی جا تو کہیں آبِ رواں تھے
ہو سکتی تھی بجلی سے یہ سرعت نہ ہرن سے
جھونکے تھے ہوا کے کہ نکل جاتے تھے سن سے
بے آب تھے دو دن سے یہ جان دار تھے گھوڑے
ہر مرتبہ اڑ جانے پہ تیار تھے گھوڑے
اس پار کبھی تھے ، کبھی اس پار تھے گھوڑے
نقطہ تھے وہ سب فوج کی پرکار تھے گھوڑے
دس بیس جو مر جاتے تھے ٹاپوں سے کچل کر
بڑھ سکتا نہ تھا اک بھی احاطہ سے اجل کے
تانے ہوئے سینوں کو جدھر جاتے تھے دونوں
تلواروں کی موجوں سے گزر جاتے تھے ، دونوں
ہر غول میں بے خوف و خطر جاتے تھے ، دونوں
سب ہوتے تھے پسپا تو ٹھہر جاتے تھے ، دونوں
الٹی ہوئی صف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
بھائی کی طرف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
دم لے کے جو گھوڑوں کو اڑاتے تھے وہ جرار
اعدا کے رسالوں کو بھگاتے تھے وہ جرار
شیروں کی طرح فوج پہ جاتے تھے وہ جرار
دو کرتے تھے یکتا، جسے پاتے تھے وہ جرار
شیروں نے جو مارا بھی تو رو داروں کو مارا
جب آنکھ ملی چن کے نموداروں کو مارا
جمعیتِ لشکر کو پریشاں کیا، دم میں
جو فوج کی جاں تھے ، انہیں بے جاں کیا دم میں
تلواروں سے جنگل کو، گلستاں کیا دم میں
سر کاٹ کے خونخواروں کو غلطاں کیا دم میں
بے دست تھے علموں کو، جو بے دین لیے تھے
بچوں نے جوانوں کے نشاں چھین لیے تھے
دو لاکھ کو دونوں نے کیا تھا تہ و بالا
تیغ ایک کی چلتی تھی، تو اک بھائی کا بھالا
اک بڑھ گیا گر ایک نے گھوڑے کو نکالا
دم اس نے لیا، اس نے لڑائی کو سنبھالا
یک جا فرسِ تیز قدم ہو گئے دونوں
جب بھیڑ بڑھی کچھ تو بہم ہو گئے دونوں
وہ چھیڑ کے تازی کو سواروں میں در آیا
دم بھر میں پیادوں کو پامال کر آیا
جب شیر سا پہونچا وہ ادھر، یہ ادھر آیا
جاں آ گئی بھائی کو جو بھائی نظر آیا
بچ بچ کے نکلتے تھے جو نیزوں کے تلے سے
اک بھائی لپٹ جاتا تھا بھائی کے گلے سے
کچھ بھائی سے بڑھ کر جو وغا کرتا تھا بھائی
بچ جانے کی بھائی کے دعا کرتا تھا بھائی
حق بھائی کی الفت کا ادا کرتا تھا بھائی
ہر وار پہ بھائی کی ثنا کرتا تھا بھائی
تم سا نہیں صفدر کوئی واللہ برادر
کیا خوب لڑے سلمک اللہ برادر
کہتا تھا بڑے بھائی سے چھوٹا بصد آداب
بھائی میں بھگا دوں ابھی ان کو، جو ملے آب
اب پیاس کی گرمی سے کلیجے کو نہیں تاب
سینے میں مرا دل نہیں، آتش پہ ہے سیماب
ہم لوگ محق کیا نہیں اس آبِ رواں کے
تالو میں خلش ہوتی ہے کانٹوں سے زباں کے
کہتا تھا بڑا بھائی میں صدقے ترے گلفام
ہم خشک زبانوں کو، بھلا پانی سے کیا کام
اب جلد اجل آئے تو کوثر کا پییں جام
غش ہم کو بھی آ جائے گا، پانی کا نہ لو نام
آنکھیں تو ستمگاروں کی تیغوں سے لڑی ہیں
چپکے رہو اماں درِ خیمہ پہ کھڑی ہیں
اس نہر کا لینا تو کچھ ایسا نہیں مشکل
روکیں ہمیں کیا تاب لعینوں کی ہے ، کیا دل
پل باندھ لیں لاشوں کے ابھی ہم سرِ ساحل
بتلائیے ، پھر نہر کے لے لینے سے حاصل
دیکھو نہ ادھر پیاس سے گو لاکھ تعب ہے
اماں ہمیں گر دودھ نہ بخشیں تو غضب ہے
اشک آنکھوں میں بھر کر، کہا چھوٹے نے بہت خوب
ہر دم ہے رضامندی مادر ہمیں مطلوب
ایسے تو نہیں ہم کہ بزرگوں سے ہوں محجوب
منظور یہ تھا فخر کا، نکلے کوئی اسلوب
دریا کو بھی دیکھیں گے نہ اب آنکھ اٹھا کے
پیتے بھی تو پہلے شہِ والا کو پلا کے
جعفرؔ کے جو پوتے ہیں، تو حیدرؔ کے نواسے
کچھ ہم علیؔ اکبر سے زیادہ نہیں پیاسے
یہ کہتے ہی لڑنے لگے ، پھر اہلِ جفا سے
فریاد کہ بچوں پہ گری فوج قفا سے
خوں سر کا بہا منہ پہ تو گھبرا گئے دونوں
دو لاکھ کی تیغوں کے تلے آ گئے دونوں
ڈوبے ہوئے تھے شام کے بادل میں وہ دو ماہ
پردے سے کھڑی تکتی تھی، زینبؔ سوئے جنگاہ
عباسؔ سے کہتے تھے تڑپ کر شہِ ذی جاہ
اب مجھ سے جدا ہوتے ہیں دو شیر مرے آہ
کیوں کر متحمل ہو دل اس رنج و محن کا
گھر لٹتا ہے بھائی مری نادار بہن کا
اس بی بی کے فاقوں کے ہیں پالے ہوئے یہ لال
دولت ہے یہی، اور یہی حشمت و اقبال
سات آٹھ برس کے ہیں ابھی کیا ہے سن و سال
سب ہاتھ ملیں گے جو یہ گل ہو گئے پامال
تازہ یہی دو پھول ہیں جعفرؔ کے چمن میں
مر جائے گا باپ ان کی خبر سن کے وطن میں
رو کر دمِ رخصت وہ یہی کہتے تھے ہر بار
میں شاہ کا خادم ہوں، یہ دونوں ہیں نمک خوار
آگاہ صعوباتِ سفر سے نہیں زنہار
اے دخترِ زہرا مرے بیٹوں سے خبردار
میں رکھ نہیں سکتا ہوں کہ ماموں پہ فدا ہیں
اب تو یہی دونوں مرے پیری کے عصا ہیں
شوہر کا تڑپنا اسے کچھ بھی نہ رہا یاد
ہے ہے مری الفت میں لٹی زینبؔ ناشاد
یوں بھائی پہ صدقے کوئی کرتا نہیں اولاد
ہم دیکھتے ہیں اور بہن ہوتی ہے برباد
روئے گی وہ بیٹوں کو تو سمجھائیں گے کیوں کر
منہ زینبؔ دلگیر کو دکھلائیں گے کیوں کر
عباسؔ نے کی عرض، کلیجا ہے دو پارا
ان کو تو کسی کی نہیں، امداد گوارا
زخمی ہوئے ، نہ مجھ کو نہ اکبرؔ کو پکارا
جائے یہ غلام آپ جو فرمائیں اشارا
حضرت کی قسم دے کے میں سمجھاؤں گا ان کو
مچلیں گے تو گودی میں اٹھا لاؤں گا ان کو
حضرت نے کہا صاحبِ غیرت ہیں، وہ دونوں
لختِ جگر شاہ ولایت ہیں وہ دونوں
ضرغامِ نیستانِ شجاعت ہیں، وہ دونوں
واللہ بڑے صاحبِ ہمت ہیں وہ ددنوں
دو لاکھ تو کیا ہیں جو کروروں میں گھریں گے
بے جان دیے ، وہ نہ پھرے ہیں نہ پھریں گے
بڑھنے لگے میداں کی طرف قاسمِ ذی جاہ
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ میں جاتا ہوں یا شاہ
ہے دونوں کی فرقت کا، مجھے صدمۂ جانکاہ
لاکھوں میں ہیں تنہا پھوپھی اماں کے پسر، آہ
ریتی پہ کہیں گر نہ پڑیں برچھیاں کھا کر
میں ساتھ انہیں لے آتا ہوں اعدا کو بھگا کر
گھبرا کے درِ خیمہ سے زینبؔ یہ پکاری
سر ننگے میں نکلوں گی، جو تم جاؤ گے واری
اولاد مجھے تم سے زیادہ نہیں پیاری
بتلاؤ کہ میں ان کی ہوں عاشق کہ تمہاری
میداں کی طرف قاسمؔ بے پر بھی نہ جائیں
تلواروں میں عباسؔ دلاور بھی نہ جائیں
زہراؔ کی قسم کچھ نہیں بیٹوں کا مجھے دھیان
بھائی پہ تصدق ہوں، یہی تھا مجھے ارمان
وہ آئے تو وسواس سے دل ہو گا پریشان
صدقے کو نہیں پھیر کے لاتے ہیں، میں قربان
خود روؤں گی پر شاہ کو غم کھانے نہ دوں گی
لاشے بھی آٹھانے کے لیے جانے نہ دوں گی
میداں میں ہے کیا اور بجز نیزۂ و شمشیر
مر جاؤں گی زخمی ہوئے گر قاسمؔ دلگیر
دل کس کا چھدے ، تم کو لگائے جو کوئی تیر
سمجھاؤ میں صدقے گئی کیوں روتے ہیں شبیرؔ
باقی ہے اگر زیست تو پھر آئیں گے دونوں
غم کس لیے ، کیا ہو گا، جو مر جائیں گے دونوں
شہزادوں کو کھوتے ہیں، غلاموں کے لیے آہ
میں جوڑتی ہوں ہاتھ بس اب روئیں نہ للٰلہ
ہے شرم کی کیا وجہ، میں لونڈی، وہ شہنشاہ
سو ایسے ہوں بیٹے تو نثار شہِ ذی جاہ
ممتاز ہے ، فدیہ ہے جو زہراؔ کے پسر کا
شان اس کی بڑھے فخر ہو جو جد و پدر کا
باپ ان کا اگر ہوتا تو وہ سر نہ کٹاتا
زہراؔ کے کلیجے کے عوض، برچھیاں کھاتا
بیٹوں کو یوں ہی میری طرح نذر کو لاتا
اپنے کوئی محسن کو نہیں دل سے بھلاتا
جو پاس ہے جس کے وہ عطائے شہِ دیں ہے
کہہ دے مرے ماں جائے کہ حق کس پہ نہیں ہے
بیٹوں سے ہوئی گر تو ہوئی، آج جدائی
سر پر مرے دنیا میں، سلامت رہیں بھائی
اک دولتِ اولاد، لٹائی تو لٹائی
کیا لٹ گیا وہ کون سی ایسی تھی کمائی
کیوں روؤں میں دنیا میں جو دلبند نہیں ہیں
کیا اکبرؔ و اصغرؔ مرے فرزند نہیں ہیں
یہ ذکر ابھی تھا کہ ستمگار پکارے
لو شاہ کی ہمشیر کے بیٹے گئے مارے
ٹکڑے کیا معصوموں کو تلواروں کے مارے
وہ لوٹتے ہیں خاک پہ، دو عرش کے تارے
پامالی کو ان دونوں کی اسوار بڑھیں گے
بچوں کے سر اب کٹ کے نشانوں پہ چڑھیں گے
یہ سنتے ہی تھرانے لگے حضرتِ عباسؔ
گھبرا کے اٹھے خاک سے شبیرؔ بصد یاس
سر کھولے ہوئے بیبیاں، ڈیوڑھی کے جو تھیں پاس
سب نے کہا لو شہ کی بہن ہو گئی بے آس
ٹوٹا ہے فلک، بنتِ شہنشاہِ نجف پر
زینبؔ کو چلو لے کے بس اب ماتمی صف پر
ہے ہے کا جو اک شور ہوا، رانڈوں میں برپا
زینبؔ بھی ہٹی، چھوڑ کے دروازے کا پردا
چلائی ارے چپکے رہو، غل ہے یہ کیسا
بھائی ہیں سلامت، مجھے کیوں دیتے ہو پرسا
ہے ہے نہ کرو صاحبو، گھبرائیں گے شبیرؔ
پھر کون ہے زینبؔ کا جو مرجائیں گے شبیرؔ
تم روتے ہو کس واسطے میں تو نہیں روتی
دامانِ مژہ بھی نہیں، اشکوں سے بھگوتی
دل ہوتا جو ایسا ہی تو کیوں بیٹوں کو کھوتی
دولت کوئی ماں جائے سے پیاری نہیں ہوتی
قائم رہے اقبال محمدؔ کے خلف کا
بس نام بھرے گھر میں نہ لو، ماتمی صف کا
سر اپنے نہ کھولو کہ مجھے آتا ہے وسواس
اک شب کی دلہن گھر میں ہے ، اس کا بھی نہیں پاس
شبیرؔ تو سر پر ہیں جو بیٹوں سے ہوئی یاس
اکبرؔ مری امید ہے ، قاسمؔ ہے مری آس
اب خلد میں نانی کے قریں جائیں گے دونوں
کیا پیٹنے رونے سے چلے آئیں گے دونوں
باتیں یہ کہیں سب سے ، پہ سنبھلا نہ دلِ زار
تڑپا یہ کلیجا کہ گری خاک پہ اک بار
واں لاشوں پہ روتے ہوئے پہونچے ، شہِ ابرار
مہماں کوئی ساعت کے ملے وہ جگر افگار
کس عمر میں ہستی کا چمن چھوڑ رہے تھے
گودی کے پلے ، خاک پہ دم توڑ رہے تھے
رخ زرد تھے اور خاک میں آلودہ تھے گیسو
جھک آئے تھے کٹ کٹ کے مہِ نو سے وہ ابرو
تلواروں سے ٹکڑے تھے ، وہ بلور سے بازو
مہتاب سی وہ چھاتیاں اور تیر سے پہلو
پھنکتا تھا جگر آنکھ نہ کھل سکتی تھی غش سے
ہونٹوں پہ زبانیں نکل آئی تھیں عطش سے
ٹکڑے ہوا سینے میں دلِ سبطِ پیمبر
ہے ہے کہا اور لاشوں سے لپٹے ، شہِ صفدر
چھوٹے سے بڑے نے کہا یہ ہوش میں آ کر
بالیں پہ حضور آئے ہیں، چونکو تو برادر
ہم دونوں غلاموں کا نہ غم کھائیو بھائی
سر پیٹیں جو اماں انہیں سمجھائیو بھائی
یہ کہہ کے لگے ہچکیاں لینے جو وہ پیارے
بس موت کے آثار نمایاں ہوئے سارے
سر پیٹ کے ہاتھوں سے یہ شبیرؔ پکارے
ماموں سے بچھڑتے ہو، میں قربان تمہارے
پھر کی نہ کوئی بات، سفر کر گئے دونوں
آنسو تھے رواں آنکھوں سے ، اور مر گئے دونوں
حضرت کے جو رونے کی صدا خیمے میں آئی
رانڈوں نے ادھر ماتمی صف گھر میں بچھائی
زینبؔ نے کہا ہائے غضب، روتے ہیں بھائی
فضہؔ یہ پکاری کہ دہائی ہے دہائی
لو چاکِ گریباں کیے آتے ہیں شبیرؔ
معصوموں کی لاشوں کو لیے آتے ہیں شبیرؔ
بیٹھی صفِ ماتم پہ ادھر شاہ کی خواہر
سیدانیوں نے اٹھ کے ادھر کھول دیے سر
لاشوں کو لیے آئے جو گھر میں شہِ صفدر
زینبؔ کے قریں بیٹھ گئے سر کو جھکا کر
فرمایا کہ لو لختِ جگر آئے تمہارے
لو دودھ انہیں بخشو، پسر آئے تمہارے
شبیرؔ نے جب دودھ کا زینبؔ سے لیا نام
ہر چند کیا ضبط، پہ تھرا گیا اندام
دل تھام کے کہنے لگی وہ بیکس و ناکام
آپ ان سے رضامند ہیں، یا شاہ خوش انجام
فرمایا دل ان دونوں سے واللہ خوشی ہے
میں ان سے خوشی ہوں، مرا اللہ خوشی ہے
عاشق تھے مرے ، اور مرے غم خوار تھے دونوں
بچے تھے مگر صادق الاقرار تھے دونوں
اس وقت میں ماموں کے مددگار تھے دونوں
حیدرؔ کی طرح صفدر و جرار تھے دونوں
موت آئے کہ داغوں سے دل اب بھر گیا زینبؔ
دونوں یہ نہیں مر گئے ، میں مر گیا زینبؔ
افسوس کہ ان دونوں کی، دیکھی نہ جوانی
میں کیا کہوں کیا صاحبِ ہمت تھے یہ جانی
ہوتی ہے بہت زخمیوں کو تشنہ دہانی
پر ہم سے دمِ مرگ بھی مانگا نہیں پانی
سمجھے کہ گرفتارِ ستم آج ہے ماموں
وہ جانتے تھے پانی کو محتاج ہے ماموں
ہمشیر سے یہ کہہ کے جو روئے شہِ ابرار
بس آ گیا فرزندوں کی ہمت پہ اسے پیار
تھرائی ہوئی خاک سے اٹھی وہ دل فگار
پاس آن کے لاشوں کی بلائیں لیں کئی بار
کاپنے جو قدم، گر کے سنبھلنے لگی زینبؔ
منہ خون بھرے چہروں سے ملنے لگی زینبؔ
دیکھا جو لہو بچوں کا، چھاتی امنڈ آئی
نزدیک تھا مر جائے یداللہ کی جائی
پر فاطمہؔ کے صبر کی شان اس نے دکھائی
سب سے یہ کہا نیگ لگی میری کمائی
بچے مرے قرباں ہوئے ، احسان خدا کا
اے بیبیو صدقہ ہے یہ شاہ شہدا کا
رو کر شہِ والا نے کہا، صدقے میں تم پر
دم بھر انہیں رو لو کہ یہ مہمان ہیں خواہر
بانوؔ نے اشارہ کیا، اے سبطِ پیمبر
قربان گئی آپ بس اب جائیے باہر
گر ضبط اسی طرح سے فرمائیں گی زینبؔ
یہ ماتمِ اولاد ہے ، مر جائیں گی زینبؔ
روتے ہوئے خیمے سے جو ڈیوڑھی پہ گئے شاہ
فرزندوں کو چلانے لگیں زینبؔ ذی جاہ
یہ نیند ہے کیسی کہ خبر تم کو نہیں آہ
صدقے گئی جاؤ شہِ کونین کے ہمراہ
زخمی ہوئے شبیرؔ تو جان اپنی میں دوں گی
اچھا میں تمہیں دونوں سے ماں جائے کو لوں گی
لو نیمچے کاندھو پہ دھرو، اے مرے پیارو
تنتے ہوئے شبیرؔ کے ہمراہ سدھارو
گو پیا سے ہو دو دن کے پہ ہمت کو نہ ہارو
یہ خون میں ڈوبے ہوئے کپڑے تو اتارو
اٹھ بیٹھو میں صدقے گئی اتنا نہیں سوتے
اس طرح تو جاگے ہوئے دولہا نہیں سوتے
سوتا ہے لڑائی کے دن ایسا کوئی غافل
بچو! تمہیں کیا سن کے کہیں گے شہِ عادل
دیکھو کر تڑپتی ہے ، یہ ماں، صورتِ بسمل
سلجھاؤ یہ زلفیں کہ الجھتا ہے مرا دل
کیا غش میں ہو، یہ سونے کا نقشہ نہیں ہوتا
ایسا تو کوئی نیند کا ماتا نہیں ہوتا
بھر دونوں کے سر زانو پہ رکھ کے یہ پکاری
لو اب ہوا معلوم کہ تم مر گئے واری
بے ہوشی میں کچھ مجھ کو خبر تھی نہ تمہاری
اب آنکھوں سے چھپ جائیں گی یہ صورتیں پیاری
دنیا کو نہ دیکھا کہ اجل آ گئی بچو
ہے ہے یہ تمہیں کس کی نظر کھائی گئی بچو
بچو! تمہیں قسمت نے نہ پروان چڑھایا
حسرت رہی، ماں نے تمہیں دولہا نہ بنایا
پیدا ہوئے جس دن سے ، کبھی چین نہ پایا
دیکھی نہ جوانی کہ پیامِ اجل آیا
ہے ہے چمنِ دہر میں پھولے نہ پھلے تم
جب فصلِ بہاری کے دن آئے تو چلے تم
میں روتی تھی در پر مجھے سمجھا نہ گئے تم
دروازے پہ دم بھر کے لیے آ نہ گئے تم
ہے ہے دلہنیں بھی، مجھے دکھلا نہ گئے تم
پیاسے تھے مگر جانبِ دریا نہ گئے تم
جیتی ہے وہ ماں جس کے گزر جانے کے دن تھے
یہ بیاہ کی راتیں تھیں کہ مر جانے کے دن تھے
خاموش انیسؔ اب کہ تڑپتا ہے دلِ زار
کافی ہے رلانے کو تری درد کی گفتار
اس جنس کا گر آج نہیں کوئی خریدار
فیاض ہے لیکن شہِ مظلوم کی سرکار
افسردہ نہ ہو غنچۂ امید کھلے گا
کھل جائیں گی آنکھیں وہ صلہ تجھ کو ملے گا
 
فہرست