کچھوا اور خرگوش

اسماعیل میرٹھی


ایک کچھوے کے آ گئی جی میں
کیجیے سیر و گشت خشکی کی
جا رہا تھا چلا ہوا خاموش
اس سے ناحق الجھ پڑا خرگوش
میاں کچھوے ! تمہاری چال ہے یہ
یا کوئی شامت اور وبال ہے یہ
یوں قدم پھونک پھونک دھرتے ہو
گویا اتو زمیں پہ دھرتے ہو
کیوں ہوئے چل کے مفت میں بد نام
بے چلے کیا اٹک رہا تھا کام
تم کو یہ حوصلہ نہ کرنا تھا
چُلّو پانی میں ڈوب مرنا تھا
یہ تن و توش اور یہ رفتار
ایسی رفتار پر خدا کی مار
بولا کچھوا کہ ہوں خفا نہ حضور
میں تو ہوں آپ معترف بہ قصور
اگر آہستگی ہے جرم و گناہ
تو میں خود اپنے جرم کا ہوں گواہ
مجھ کو جو سخت سست فرمایا
آپ نے سب درست فرمایا
مجھ کو غافل مگر نہ جانیے گا
بندہ پرور برا نہ مانیے گا
یوں زبانی جواب تو کیا دوں
شرط بد کر چلو تو دکھلا دوں
تم تو ہو آفتاب میں ذرہ
پر مٹا دوں گا آپ کا غرہ
سن کے خرگوش نے یہ تلخ جواب
کہا کچھوے سے یوں زروئے عتاب
تو کرے میری ہم سری کا خیال
تیری یہ تاب یہ سکت یہ مجال
چیونٹی کے جو پر نکل آئے
تو یقیں ہے کہ اب اجل آئے
ارے بے باک! بد زباں منہ پھٹ
تو نے دیکھی کہاں ہے دوڑ جھپٹ
جب میں تیزی سے جست کرتا ہوں
شہسواروں کو پست کرتا ہوں
گرد کو میری بادِ پا نہ لگے
لاکھ دوڑے مرا پتہ نہ لگے
ریل ہوں برق ہوں چھلاوا ہوں
میں چھلاووں کا بلکہ باوا ہوں
تیری میری نبھے گی صحبت کیا
آسماں کو زمیں سے نسبت کیا
جس نے بھگتے ہوں ترکی و تازی
ایسے مریل سے کیا بدے بازی
بات کو اب زیادہ کیا دوں طول
خیر کرتا ہوں تیری شرط قبول
ہے مناسب کہ امتحاں ہو جائے
تاکہ عیب و ہنر عیاں ہو جائے
الغرض اک مقام ٹھہرا کر
ہوئے دونوں حریف گرمِ سفر
بسکہ زوروں پہ تھا چڑھا خرگوش
تیزی پھرتی سے یوں بڑھا خرگوش
جس طرح جائے توپ کا گولا
یا گرے آسمان سے اولا
ایک دو کھیت چوکڑی بھر کے
اپنی چستی پہ آفریں کر کے
کسی گوشہ میں سو گیا جا کر
فکر ''کیا ہے چلیں گے سستا کر''
اور کچھوا غریب آہستہ
چلا سینہ کو خاک پر گھستا
سوئی گھنٹے کی جیسے چلتی ہے
یا بتدریج چھاؤں ڈھلتی ہے
یوں ہی چلتا رہا بہ استقلال
نہ کیا کچھ اِدھر اُدھر کا خیال
کام کرتا رہا جو پے در پے
کر گیا رفتہ رفتہ منزل طے
حیف خرگوش رہ گیا سوتا
ثمرہ غفلت کا اور کیا ہوتا
جب کھلی آنکھ تو سویرا تھا
سخت شرمندگی نے گھیرا تھا
صبر و محنت میں ہے سرافرازی
سست کچھوے نے جیت لی بازی
نہیں قصہ یہ دل لگی کے لیے
بلکہ عبرت ہے آدمی کے لیے
ہے سخن اس حجاب میں روپوش
ورنہ کچھوا کہاں کہاں خرگوش
 
فہرست