گرمی کا موسم

اسماعیل میرٹھی


مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
چلی لو اور تڑاقے کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ
زمیں ہے یا کوئی جلتا توا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
در و دیوار ہیں گرمی سے تپتے
بنی آدم ہیں مچھلی سے تڑپتے
پرندے اڑ کے ہیں پانی پہ گرتے
چرندے بھی ہیں گھبرائے سے پھرتے
درندے چھپ گئے ہیں جھاڑیوں میں
مگر ڈوبے پڑے ہیں کھاڑیوں میں
نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی
زمیں کا فرش ہے چھت آسماں کی
نہ پنکھا ہے نہ ٹٹی ہے نہ کمرہ
ذرا سی جھونپڑی محنت کا ثمرہ
امیروں کو مبارک ہو حویلی
غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی
 
فہرست