ہوا اور سورج کا مقابلہ
اک مسافر اپنی دھن میں تھا رواں
اس کو ان دونوں نے تاکا ناگہاں
ہو گئے آپس میں طے قول و قرار
جو لبادہ لے مسافر کا اتار
بس اسی کے نام کا ڈنکا بجے
سر پہ دستارِ فضیلت وہ سجے
پھر تو آندھی بن کے چل نکلی ہوا
ایسی بپھری کر دیا طوفاں بپا
اونچے اونچے پیڑ تھرانے لگے
جھوک سے جھوکوں کی چرانے لگے
نونہالوں کی کمر بل کھا گئی
پھول پتوں پر قیامت آ گئی
کانپ اٹھے اس دشت کے کل وحش و طیر
مانگتے تھے اپنے اپنے دم کی خیر
ہو گیا دامان صحرا گرد برد
گھر گیا آفت میں وہ صحرا نورد
چاہتی تھی لوں لبادے کو اچک
مدعی کو دوں سر میدان زک
جب ہوا لیتی تھی چکر میں لپیٹ
بیٹھ جاتا تھا وہ دامن کو سمیٹ
سینہ زوری سے نہ چوری سے ڈری
کر سکی لیکن نہ کچھ غارت گری
باندھ لی کس کر مسافر نے کمر
تا ہوا کا ہو نہ کپڑوں میں گزر
تھک گئی آخر نہ اس کا بس چلا
ٹل گئی سر سے مسافر کے بلا
اب تھما جھکڑ تو نکلا آفتاب
روئے نورانی سے سرکائی نقاب
تمکنت چہرے سے اس کے آشکار
چال میں اک برد باری اور وقار
وہ ہوا کی سی نہ تھی یاں دھوم دھام
کر رہا تھا چپکے چپکے اپنا کام
دھیمی دھیمی کرنیں چمکانے لگا
رفتہ رفتہ سب کو گرمانے لگا
اس مسافر کو پسینہ آ گیا
کھول ڈالے بند جی گھبرا گیا
اور آگے کو بڑھا تو دھوپ سے
تن بدن میں کچھ پتنگے سے لگے
اب لبادے کو لیا کاندھے پہ ڈال
بدلی یوں نوبت بہ نوبت چال ڈھال
جب چڑھا خورشید سمت الراس پر
بیٹھ کر سائے میں پھر تو گھاس پر
دور پھینکا اس لبادے کو اتار
واہ رے سورج لیا میدان مار
تیزی و تندی کے گرویدہ ہیں سب
کامیابی کا مگر ہے اور ڈھب
اس کا گر ہے نرمی و آہستگی
سرکشی کی رگ اسی سے ہے دبی