لوگ اب بھولتے جاتے ہیں مجھے

باقی صدیقی


تیرے افسانے سناتے ہیں مجھے
لوگ اب بھولتے جاتے ہیں مجھے
قمقمے بزمِ طرب کے جاگے
رنگ کیا کیا نظر آتے ہیں مجھے
میں کسی بات کا پردہ ہوں کہ لوگ
تیری محفل سے اٹھاتے ہیں مجھے
زخم آئنہ بنے جاتے ہیں
حادثے سامنے لاتے ہیں مجھے
نیند بھی ایک ادا ہے تیری
رات بھر خواب جگاتے ہیں مجھے
تیرے کوچے سے گزرنے والے
کتنے اونچے نظر آتے ہیں مجھے
ان کے بگڑے ہوئے تیور باقیؔ
زیست کی یاد دلاتے ہیں مجھے
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست