ہو گئے مست عاشقانِ غزل

باقی صدیقی


دیکھ کر تجھ میں کچھ نشانِ غزل
ہو گئے مست عاشقانِ غزل
یہ دائیں، یہ حسن، یہ تیور
تجھ پہ ہونے لگا گمانِ غزل
تیری باتوں کا لطف آتا ہے
اتنی رنگین ہے زبانِ غزل
ہے عبارت غزل سے تیرا غرور
اور قائم ہے تجھ سے شانِ غزل
نت نئے روپ میں ابھرتا ہے
تیرا غم ہے مزاجدانِ غزل
دل کا ہر زخم بول اٹھتا ہے
جب گزرتا ہے کاروانِ غزل
وقت کے ساتھ خ بدلتا ہے
ہر گھڑی ہحے نیا جہانِ غزل
اور بھی کچھ طویل کر دی ہے
غمِ ہستی نے داستانِ غزل
کچھ طبیعت اداس ہے باقیؔ
آج دیکھا نہیں وہ جانِ غزل
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست