بہتر یہ ہے کہ آپ مجھے بھول جائیے

جون ایلیا


جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوائیے
بہتر یہ ہے کہ آپ مجھے بھول جائیے
ہر آن اک جدائی ہے خود اپنے آپ سے
ہر آن کا ہے زخم جو ہر آن کھائیے
تھی مشورت کی ہم کو بسانا ہے گھر نیا
دل نے کہا کہ میرے در و بام ڈھائیے
تھوکا ہے میں نے خون ہمیشہ مذاق میں
میرا مذاق آپ ہمیشہ اڑائیے
ہرگز مرے حضور کبھی آئیے نہ آپ
اور آئیے اگر تو خدا بن کے آئیے
اب کوئی بھی نہیں ہے کوئی دل محلے میں
کس کس گلی میں جائیے اور گل مچائیے
اک طور دہ صدی تھا جو بے طور ہو گیا
اب جنتری بجائیے تاریخ گائیے
اک لال قلعہ تھا جو میاں زرد پڑ گیا
اب رنگ ریز کون سے کس جا سے لائیے
شاعر ہے آپ یعنی کہ سستے لطیف گو
رشتوں کو دل سے رویے سب کو ہنسائیے
جو حالتوں کا دور تھا وہ تو گزر گیا
دل کو جلا چکے ہیں سو اب گھر جلائیے
اب کیا فریب دیجیے اور کس کو دیجیے
اب کیا فریب کھائیے اور کس سے کھائیے
ہے یاد پر مدار میرے کاروبار کا
ہے عرض آپ مجھ کو بہت یاد آئیے
بس فائلوں کا بوجھ اٹھایا کریں جناب
مصرع یہ جونؔ کا ہے اسے مت اٹھائیے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست