سفر کے وقت

جون ایلیا


تمہاری یاد مرے دل کا داغ ہے لیکن
سفر کے وقت تو بے طرح یاد آتی ہو
برس برس کی ہو عادت کا جب حساب تو پھر
بہت ستاتی ہو جانم بہت ستاتی ہو
میں بھول جاؤں مگر کیسے بھول جاؤں بھلا
عذابِ جاں کی حقیقت کا اپنی افسانہ
مرے سفر کے وہ لمحے تمہاری پر حالی
وہ بات بات مجھے بار بار سمجھانا
یہ پانچ کرتے ہیں دیکھو یہ پانچ پاجامے
ڈلے ہوئے ہیں کمر بند ان میں اور دیکھو
یہ شیو بکس ہے اور یہ ہے اولڈ اسپائس
نہیں حضور کی جھونجل کا اب کوئی باعث
یہ ڈائری ہے اور اس میں پتے ہیں اور نمبر
اسے خیال سے بکسے کی جیب میں رکھنا
ہے عرض ''حضرت غائب دماغ'' بندی کی
کہ اپنے عیب کی حالت کو غیب میں رکھنا
یہ تین کوٹ ہیں پتلون ہیں یہ ٹائیاں ہیں
بندھی ہوئی ہیں یہ سب تم کو کچھ نہیں کرنا
یہ ویلیمؔ ہے اونٹلؔ ہے اور ٹرپٹیؔ نال
تم ان کے ساتھ مری جاں ڈرنک سے ڈرنا
بہت زیادہ نہ پینا کہ کچھ نہ یاد آئے
جو لکھنٔو میں ہوا تھا وہ اب دو بارہ نہ ہو
ہو تم سخن کی انا اور تمکنت جانم
مذاق کا کسی انشاؔ کو تم سے یارا نہ ہو
وہ جونؔ جو نظر آتا ہے اس کا ذکر نہیں
تم اپنے جونؔ کا جو تم میں ہے بھرم رکھنا
عجیب بات ہے جو تم سے کہہ رہی ہوں میں
خیال میرا زیادہ اور اپنا کم رکھنا
ہو تم بلا کے بغاوت پسند تلخ کلام
خود اپنے حق میں اک آزار ہو گئے ہو تم
تمہارے سارے صحابہ نے تم کو چھوڑ دیا
مجھے قلق ہے کہ بے یار ہو گئے ہو تم
یہ بینک کار منیجر یہ اپنے ٹیکنوکریٹ
کوئی بھی شبہ نہیں ہیں یہ ایک عبث کا ٹھٹھول
میں خود بھی ان کو کرومیگنن سمجھتی ہوں
یہ شان دار جناور ہیں دفتروں کا مخول
میں جانتی ہوں کہ تم سن نہیں رہے مری بات
سماج جھوٹ سہی پھر بھی اس کا پاس کرو
ہے تم کو طیش ہے بالشتیوں کی یہ دنیا
تو پھر قرینے سے تم ان کو بے لباس کرو
تم ایک سادہ و برجستہ آدمی ٹھہرے
مزاج وقت کو تم آج تک نہیں سمجھے
جو چیز سب سے ضروری ہے وہ میں بھول گئی
یہ پاسپورٹ ہے اس کو سنبھال کے رکھنا
جو یہ نہ ہو تو خدا بھی بشر تک آ نہ سکے
سو تم شعور کا اپنے کمال کر رکھنا
مری شکست کے زخموں کی سوزش جاؤید
نہیں رہا مرے زخموں کا اب حساب کوئی
ہے اب جو حال مرا وہ عجب تماشا ہے
مرا عذاب نہیں اب مرا عذاب کوئی
نہیں کوئی مری منزل پہ ہے سفر درپیش
ہے گرد گرد عبث مجھ کو در بہ در پیش
 
فہرست