فن پارہ

جون ایلیا


یہ کتابوں کی صف بہ صف جلدیں
کاغذوں کا فضول استعمال
روشنائی کا شان دار اسراف
سیدھے سیدھے سے کچھ سیہ دھبے
جن کی توجیہ آج تک نہ ہوئی
چند خوش ذوق کم نصیبوں نے
بسر اوقات کے لیے شاید
یہ لکیریں بکھیر ڈالی ہیں
کتنی ہی بے قصور نسلوں نے
ان کو پڑھنے کے جرم میں تا عمر
لے کے کشکول علم و حکمت و فن
کو بہ کو جاں کی بھیک مانگی ہے
آہ یہ وقت کا عذابِ الیم
وقت خلاق بے شعور قدیم
ساری تعریفیں ان اندھیروں کی
جن میں پرتو نہ کوئی پرچھائیں
آہ یہ زندگی کی تنہائی
سوچنا اور سوچتے رہنا
چند معصوم پاگلوں کی سزا
آج میں نے بھی سوچ رکھا ہے
وقت سے انتقام لینے کو
یوں ہی تا شام سادے کاغذ پر
ٹیڑھے ٹیڑھے خطوط کھینچے جائیں
 
فہرست