شہر خاموش ہے شوریدہ سروں کے ہوتے

جون ایلیا


ہو کا عالم ہے یہاں نالہ گروں کے ہوتے
شہر خاموش ہے شوریدہ سروں کے ہوتے
کیوں شکستہ ہے ترا رنگ متاع صد رنگ
اور پھر اپنے ہی خونیں جگروں کے ہوتے
کار فریاد و فغاں کس لیے موقوف ہوا
تیرے کوچے میں ترے با ہنروں کے ہوتے
کیا دوانوں نے ترے کوچ ہے بستی سے کیا
ورنہ سنسان ہوں راہیں نگھروں کے ہوتے
جز سزا اور ہو شاید کوئی مقصود ان کا
جا کے زنداں میں جو رہتے ہیں گھروں کے ہوتے
شہر کا کام ہوا فرط حفاظت سے تمام
اور چھلنی ہوئے سینے سپروں کے ہوتے
اپنے سودا زدگاں سے یہ کہا ہے اس نے
چل کے اب آئیو پیروں پہ سروں کے ہوتے
اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست