تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا

جگر مراد آبادی


جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا
تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا
نگاہوں سے چھپ کر کہاں جائیے گا
جہاں جائیے گا ہمیں پائیے گا
مرا جب برا حال سن پائیے گا
خراماں خراماں چلے آئیے گا
مٹا کر ہمیں آپ پچھتائیے گا
کمی کوئی محسوس فرمائیے گا
نہیں کھیل ناصح جنوں کی حقیقت
سمجھ لیجیے گا تو سمجھائیے گا
ہمیں بھی یہ اب دیکھنا ہے کہ ہم پر
کہاں تک توجہ نہ فرمائیے گا
ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں
تڑپ جائیے گا جو تڑپائیے گا
یہ دل ہے اسے دل ہی بس رہنے دیجے
کرم کیجیے گا تو پچھتائیے گا
کہیں چپ رہی ہے زبان محبت
نہ فرمائیے گا تو فرمائیے گا
بھلانا ہمارا مبارک مبارک
مگر شرط یہ ہے نہ یاد آئیے گا
ہمیں بھی نہ اب چین آئے گا جب تک
ان آنکھوں میں آنسو نہ بھر لائیے گا
ترا جذبۂ شوق ہے بے حقیقت
ذرا پھر تو ارشاد فرمائیے گا
ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگِ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمائیے گا
یہ مانا کہ دے کر ہمیں رنج فرقت
مداوائے فرقت نہ فرمائیے گا
محبت محبت ہی رہتی ہے لیکن
کہاں تک طبیعت کو بہلائیے گا
نہ ہو گا ہمارا ہی آغوش خالی
کچھ اپنا بھی پہلو تہی پائیے گا
جنوں کی جگرؔ کوئی حد بھی ہے آخر
کہاں تک کسی پر ستم ڈھائیے گا
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
متقارب مثمن سالم
فہرست