شہادت غیب کی خاطر تو حاضر ہے گواہی کو

خواجہ میر درد


سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الٰہی کو
شہادت غیب کی خاطر تو حاضر ہے گواہی کو
نہیں ممکن کہ ہم سے ظلمت امکان زائل ہو
چھڑا دے آہ کوئی کیوں کے زنگی سے سیاہی کو
عجب عالم ہے ایدھر سے ہمیں ہستی ستاتی ہے
ادھر سے نیستی آتی ہے دوڑی عذر خواہی کو
نہ رہ جاؤے کہیں تو زاہدا محروم رحمت سے
گنہ گاروں میں سمجھا کریو اپنی بے گناہی کو
نہ لازم نیستی اس کو نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے دردؔ ممکن کی نناہی کو
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست