ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے

مرزا غالب


دیا ہے دل اگر اس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے ، کیا کہیے !
رہے ہے یوں گہ و بے گہ ، کہ کوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے !
زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے ، کیا کہیے
سمجھ کے کرتے ہیں ، بازار میں وہ پرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ ، سرِ رہگزر ہے ، کیا کہیے ؟
تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂِ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے ، مگر ہے کیا؟ کہیے !
انہیں سوال پہ زعم جنوں ہے ، کیوں لڑیے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے ، کیا کہیے ؟
حسد ، سزائے کمالِ سخن ہے ، کیا کیجے
ستم ، بہائے متاعِ ہنر ہے ، کیا کہیے !
کہا ہے کس نے کہ غالب برا نہیں ، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہیے
فہرست