وفاداری کے وعدے کر رہے ہو بے وفا ہو کر

قمر جلالوی


منانے کو مجھے آئے ہو دشمن سے خفا ہو کر
وفاداری کے وعدے کر رہے ہو بے وفا ہو کر
نہ ابھری گردشِ تقدیر سے یہ ڈوبتی کشتی
میں خود شرما گیا منت گزارِ ناخدا ہو کر
ضد ہے ساقی سے کہ بھر دے میرا پیمانہ ابھی
شیخ صاحب سیکھیے آدابِ میخانہ ابھی
باغباں توہینِ گلشن چار تنکوں کے لیے
برق سے کہہ دے بنا جاتا ہے کاشانہ ابھی
یہ مانا برق کے شعلے مرا گھر پھونک کر جاتے
مگر کچھ حادثے پھولوں کے اوپر بھی گزر جاتے
مرے کہنے سے گر اے ہم قفس خاموش ہو جاتا
نہ تیرے بال و پر جاتے نہ میرے بال و پر جاتے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست