دلاسہ شکیب جلالی ہم ملے کب تھے جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و غم بجاں ہات میں ہو نرم ہات لب ہوں لب پر مہرباں اس پہ کیا موگوف ہے ربطِ بہم کی داستاں رہگزار خاک پر دور سے دو رویہ پیڑوں کی قطاریں لاکھ آتی ہوں نظر اپنے سر جوڑے ہوئے درمیاں ان کے مگر کب نہ حائل تھا غبارِ رہگزر ہم ملے کب تھے جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و چشمِ تر