جاگتی آنکھیں شکیب جلالی کس کو گماں تگھا اک نقطے کی آغوش اتنی کشادہ ہو گی جس میں انت سرے تک رنگ بھری پہنائی گھل مل کر رہ جائے گی کس کو خبر تھی، انجانے پن کی گرد لبادہ ہو گی جس کے صدیوں کی سر بستہ دانائی اپنی چھب دکھلائے گی کس کو یقیں تھا، دور کے لمس کی تاثیر اتنی زیادہ ہو گی جس سے سنگیں پیکر میں جامد رعنائی روح کی ندرت پائے گی ایسی انھونی باتوں میں سچ کی کرنیں ٹانک چکا ہوں میں ان جاگتی آنکھوں کے گمبھیر طلسم میں جھانک چکا ہوں