لرزتا دیپ شکیب جلالی دودِ شب کا سرد ہاتھ آسماں کے خیمۂ زنگار کی آخری قندیل گل کرنے بڑھا اور کومل چاندنی ایک دربستہ گھروندے سے پرے مضمحل پیڑوں پہ گر کر بجھ گئی بے نشاں سائے کی دھیمی چاپ پر اونگھتے رستے کے ہر ذرے نے پل بھر کے لیے اپنی پلکوں کی بجھی درزوں سے جھانکا اور آنکھیں موندلیں اس سمے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ سے میں نے پوچھا ہم نفس اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے ؟