عکس اور میں شکیب جلالی آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی دہکے عارض۔۔ ۔ آئینے میں تیز شعلوں کی ضیا احمریں لب۔ ۔ ۔ ۔ زخمِ تازہ موجِ خوں سے آشنا تیکھے ابرو۔۔ ۔ کالی راتوں کا ملائم ڈھیر سا بہتی افشاں۔ ۔ ۔ ۔ جگمگاتی مشعلوں کا قافلہ گہری آنکھیں۔ ۔ ۔ ۔ دور تک منظر سہانے خواب کا آب حو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی نقرئی پانی کے جو آنچل میں جھلمل کر رہی تھی، کون تھی حور تھی تخئیل کے رمنوں کی یا وہ جل پری تھی، کون تھی۔۔ ۔؟ اس پہیلی کی گرہ کھلنے سے پہلے ہی نگاہوں پر مری ریشمیں قدموں کی آہٹ سے خلا کی سبز چلمن آ گری آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی یا کفِ ساحل پہ میرے نقشِ پا تھے اور بس