لہو ترنگ

شکیب جلالی


پہلی آواز
ہمیں قبول نہیں زندگی اسیری کی
ہم آج طوق و سلال کو توڑ ڈالیں گے
ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں
ہم اپنے ہاتھ میں لوح و فلم سنبھالیں گے
فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی
سفینہ حلقۂ طوفاں سے ہم نکالیں گے
نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے
ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے جلالیں گے
دوسری آواز
جو لوگ لے کے اٹھے ہیں علم بغاوت کا
انہیں خود اپنی ہلاکت پہ نوحہ خواں کر دو
بجھاؤ گرم سلاخوں کو ان کی آنکھوں میں
زبانیں کھینچ لو گدی سے ، بے زباں کر دو
ہدف بناؤ دلوں کو سلگتے تیروں کا
سناں سے خیموں کو چھیدو، شکستہ جاں کر دو
محل سرا کی حدوں تک کوئی پہونچ نہ سکے
ہر ایک گام پی ایستادہ سولیاں کر دو
پہلی آواز
یہ غم نہیں کہ سرِ دار آئے جاتے ہیں
ہمیں خوشی ہے وطن کو جگائے جاتے ہیں
ہمارے بعد سہی، رات ڈھل تو جائے گی
دلوں میں شمعِ جنوں تو جلائے جاتے ہیں
ہمارے نقشِ قدم دیں گے منزلوں کا سراغ
ہمیں شکست نہ ہو گی بتائے جاتے ہیں
جواں رہیں گی ہمارے لہو کی تحریریں
سدا بہار شگوفے کھلائے جاتے ہیں
 
فہرست