ہے ستم گرمیِ بازار خریداروں پر

عرفان صدیقی


یورشِ جلوہ ہے آنکھوں کے گنہگاروں پر
ہے ستم گرمیِ بازار خریداروں پر
روپ کی دھوپ کہاں جاتی ہے معلوم نہیں
شام کس طرح اتر آتی ہے رخساروں پر
تو ہی بول، اے مرے بے جرم لہو کی تحریر
کوئی دھبہ نہیں چلتی ہوئی تلواروں پر
تم تو خیر آگ کے دریا سے گزر آئے ہو
اور وہ لوگ جو چلتے رہے انگاروں پر
شام سنولائے تو پلکوں پہ سجے درد کا شہر
آج یہ دھوپ تو جم سی گئی میناروں پر
کتنا بے رحم ہے برسات کا موسم عرفانؔ
میں نے کچھ نام لکھے تھے انہیں دیواروں پر
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست