جا رہی ہے جو ندی کھیتوں سے شرمائی ہوئی

عرفان صدیقی


یہ بھی گزرے ہوئے بادل کی ہے ترسائی ہوئی
جا رہی ہے جو ندی کھیتوں سے شرمائی ہوئی
ذہن شاعر کا، نئی صبحوں کے سورج کی کرن
جیسے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ ہنسی آئی ہوئی
اب میں یہ سوچ کے رک جاؤں تو جل جاؤں گا
کہ ہے یہ آگ کسی اور کی بھڑکائی ہوئی
کیا چھپا رکھا ہے دیواروں نے خوشبو کے چراغ
کیوں منڈیروں پہ ہوا پھرتی ہے گھبرائی ہوئی
لیجیے مجھ سے یہ بھی پیمانِ وفا چاہتی ہے
یہی دنیا، مرے اجداد کی ٹھکرائی ہوئی
فہرست