یہ کشتگاں کا قبیلہ سمٹتا جاتا ہے

عرفان صدیقی


دلوں سے درد کا احساس گھٹتا جاتا ہے
یہ کشتگاں کا قبیلہ سمٹتا جاتا ہے
کھلے پروں پہ فضا تنگ ہوتی جاتی ہے
اور آسمان زمینوں میں بٹتا جاتا ہے
ہزار قرب کے امکان بڑھتے جاتے ہیں
مگر وہ ہجر کا رشتہ جو کٹتا جاتا ہے
افق میں ڈوبتا جاتا ہے شامیانۂ زر
سوادِ شامِ بدن سے لپٹتا جاتا ہے
طلوع ہونے کو ہے پھر کوئی ستارۂ غیب
وہ دیکھ‘ پردۂ افلاک ہٹتا جاتا ہے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست